سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 109
قریش کی فتنہ خیزیاں اور عبداللہ بن اُبئ کو خط:
پچھلے صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے اور جب مسلمانوں نے ہجرت شروع کی تو ان کے خلاف کیسی کیسی کارروائیاں کی تھیں جن کی بنا پر وہ مستحق ہوچکے تھے کہ ان کے اموال ضبط کر لیے جائیں اور ان پر بزن بول دیا جائے، مگر اب بھی ان کی حماقت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے، بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے۔
چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن اُبی کو جو ابھی تک کھلم کھلا مشرک تھا، اس کی حیثیت کی بنا پر ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ وہ انصار کا سردار ہے، (کیونکہ انصار اس کی سربراہی پر متفق ہوچکے تھے اور اگر اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری نہ ہوئی ہوتی تو اس کو بادشاہ بھی بنا لیے ہوتے) مشرکین نے اس خط میں عبداللہ بن اُبیّ اور اس کے مشرک رفقاء کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں لکھا :
''آپ لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دے رکھی ہے، اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجیے، یا اسے نکال دیجیے، یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کردیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کر ڈالیں گے-'' (ابوداؤد : باب خبر النضیر ۲/۱۵۴)
اس خط کے پہنچتے ہی عبداللہ بن اُبیّ مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ پڑا، اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا، کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے، چنانچہ جب یہ خط عبداللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ''قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے، تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو، قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے، تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟" نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر لوگ بکھر گئے۔ (ابوداؤد: باب مذکورہ ۲/ ۵۶۳)
اس وقت تو عبداللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا، کیونکہ اس کے ساتھی ڈھیلے پڑ گئے تھے، یا بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی، لیکن حقیقت میں قریش کے ساتھ اس کے روابط درپردہ قائم رہے، کیونکہ مسلمان اور مشرکین کے درمیان شَر وفساد کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا، پھر اس نے اپنے ساتھ یہود کو بھی ساتھ رکھا تھا، تاکہ اس معاہدے میں ان سے بھی مدد حاصل کرے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت تھی جو رہ رہ کر شَرّوفساد کی بھڑ کنے والی آگ بجھا دیا کرتی تھی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں