سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 119
رمضان کے روزوں کی فرضیت:
تیسرا اہم واقعہ روزوں کی فرضیت کا ہے:
ماہ شعبان 2 ہجری کے آخری عشرہ میں سورۂ بقرہ کی آیت 183 نازل ہوئی جس کے ذریعہ رمضان کے روزے فرض کئے گئے۔
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم متقی بن جاؤ-" (سورہ بقرہ : 183)
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ روزے صرف اُمتِ مسلمہ (اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے لئے فرض نہیں کئے گئے تھے، بلکہ ہر نبی کی اُمت نے روزے رکھے تھے۔
حضرت آدم علیہ السلام ہر مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام طوفان ختم ہونے کے بعد کشتی سے اترے اور قربانی کرنے کے بعد ماہ رمضان کے روزے رکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام صابی قوم میں مبعوث ہوئے تو آپ نے پورے تیس روزے رکھے اور فرمایا کہ روزے اللہ کے لئے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے بعد جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو ایک مہینہ تک روزہ رکھے اور پھر اس مدت میں مزید دس دن بڑھا کر چلہ پورا کیا، جس کے بعد آپ کو تورات عطا ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت بھی چالیس دن تک روزہ رکھتی تھی، لیکن بعد میں انہوں نے یہ پابندی اٹھالی اور اس کے بجائے چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنا شروع کر دیا، یہودیوں کے روزہ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ افطار کے وقت جو کچھ کھا لیں، سو کھا لیں پھر کچھ نہیں کھاتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن کھاتے پیتے، عیسائی لوگ چھ ہفتوں تک مسلسل روزے رکھتے تھے، لیکن اتوار کو ناغہ کرتے، آغاز ایک بدھ سے ہوتا اور اختتام اتوار پر، اسی طرح 34 دن روزے رکھتے تھے، عیسائی مذہب کے ماننے والے روزہ میں بھوک پیاس کی پابندی کے قائل نہیں ہیں، پوپ نے انہیں کھانے پینے کی اجازت دے کر حکم دیا ہے کہ روزہ صرف خیالات کی حد تک رکھا جائے۔
ابتدا میں مسلمان افطار کے وقت کھانا کھائے بغیر اگر سو جاتے تو پھر دوسرے دن افطار کے وقت ہی دوبارہ کھاتے تھے، سونے کے ساتھ ہی روزہ بند ہو جاتا تھا، پھر اللہ تعالی نے سحری کا حکم دیا اور روزے کا وقت متعین کر دیا اور اس کے ساتھ سحری وافطاری کرنے کا وقت بھی بتا دیا گیا اور امت پر سے مشقت کو ختم کر دیا گیا-
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں