سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 114


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 114

جنگ کی اجازت:

پچھلی اقساط میں بتایا جا چکا ہے کہ قریشِ مکہ کو مسلمانوں کا یثرب میں امن و سکون کسی صورت برداشت نہ ہوا، نبوت کے ابتدائی تیرہ سال مکہ میں اس طرح گزرے کہ مسلمانوں کو مارا گیا، پیٹا گیا اور جلتے ہوئے پتھروں پر ان کو لٹایا گیا، ان کا سماجی و معاشی مقاطعہ کرکے پہاڑی کی گھاٹی میں قید کردیا گیا، خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بادل ناخواستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا گیا اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے کھلی اور چھپی ہر قسم کی تدبیریں شروع کردیں، انہوں نے مہاجرین کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور کہلا بھیجا کہ تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کر نکل آئے، ہم یثرب پہنچ کر تمھارا ستیاناس کردیتے ہیں۔

یہ صورت حال مدینہ کے مسلمانوں کے وجود کے لئے بڑی پُرخطر ہوگئی تھی، اس لئے کہ قریش ان کے استیصال کا تہیہ کر چکے تھے، مکہ میں مسلمانوں کا دشمن ایک ہی گروہ تھا، یعنی مشرکین قریش، لیکن مدینہ میں تین گروہ ان کے حریف ہوگئے تھے۔

(۱) ایک تو وہی مکہ کے پرانے دشمن قریش جو وطن سے بے وطن کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

(۲) دوسرے مدینہ اور آس پاس کی بستیوں کے یہودی جنہوں نے اگرچہ کہ مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا، مگر ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ سلگ رہی تھی۔

(۳) تیسرے منافقین جو مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ تھے، تاہم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زندگی میں بڑا فرق تھا، مدینہ کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا تھا، مکہ اور دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اس امن گاہ میں پناہ لینے کے لئے جمع ہو رہے تھے، اس لئے مدینہ نے مرکز اسلام کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔

ان پُرخطر حالات میں جو مدینہ میں مسلمانوں کے وجود کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے اور جن سے عیاں تھا کہ قریش کسی طرح ہوش کے ناخن لینے اور اپنے تمرد سے باز آنے کے لیے تیار نہیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی، لیکن اسے فرض قرار نہیں دیا، اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد نازل ہوا، وہ یہ تھا:

''جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔'' (۲۲: ۳۹)

پھر اس آیت کے ضمن میں مزید چند آیتیں نازل ہوئیں، جن میں بتایا گیا کہ یہ اجازت محض جنگ برائے جنگ کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود باطل کے خاتمے اور اللہ کے شعائر کا قیام ہے، چنانچہ آگے چل کر ارشاد ہوا:

''جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار سونپ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے-'' (۲۲: ۴۱)

قتال کی یہ اجازت پہلے پہل قریش تک محدود تھی، پھر حالات بدلنے کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی، چنانچہ آگے چل کر یہ اجازت وجوب سے بدل گئی اور قریش سے متجاوز ہوکر غیر قریش کو بھی شامل ہوگئی۔

جنگ کی اجازت تو نازل ہوگئی، لیکن جن حالات میں نازل ہوئی وہ چونکہ محض قریش کی قوت اور تمرد کا نتیجہ تھے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسلط کے اس پھیلاؤ کے لیے کئی منصوبے اختیار کیے۔

سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی حفاظت کے لئے رضا کاروں کے دستے متعین کئے، یہ رضا کار ساری ساری رات جاگ کر شہر کے ارد گرد پہرہ دیتے اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے۔

دوسرا قدم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ کچھ رضا کار دستے مکہ سے مدینہ آنے والے راستوں کی دیکھ بھال کے لئے روانہ کیے، کبھی کبھی ان کی قریش کے آدمیوں سے مڈ بھیڑ بھی ہوجاتی۔

تیسرا اہتمام یہ کیا کہ مدینہ کے آس پاس بسنے والے مختلف قبیلوں سے دوستی کے معاہدے کرنے شروع کردئیے، تاکہ یہ لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں امن و امان قائم رکھنے میں مسلمانوں کی مدد کریں، یہ کام زیادہ تر انہی دستوں سے لیا جاتا، کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی تشریف لے جاتے، چنانچہ بنی ضمرہ، بنی مدلج اور جہینہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔

مگر مکہ والے کب باز آنے والے تھے، جمادی الآخر 2 ہجری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی مدلج سے معاہدہ کرکے مدینہ واپس آئے تو چند ہی روز بعد اطلاع ملی کہ مکہ کے ایک سردار "کرز بن جابر فہری" نے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ کیا اور کچھ مویشی لوٹ کر لے گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے تعاقب میں بدر کے قریب وادی سفوان تک تشریف لے گئے، مگر کرز ہاتھ نہ آیا، ان کی قسمت میں قبول اسلام کی عزت لکھی تھی، چنانچہ مشرف بہ اسلام ہوکر فتح مکہ کے موقع پر شہید ہوئے، تاہم اس واقعہ سے مسلمانوں پر اہل مکہ کے عزائم بے نقاب ہوگئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار فرمانے میں زیادہ اہتمام فرمایا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں