سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 108
یہود کے ساتھ معاہدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے، سیاست اور نظام کی وحدت کے ذریعے ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیادیں استوار کرلیں تو غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات منظم کرنے کی طرف توجہ فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن وسلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ ور ہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے گرد وپیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہوجائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مسنون فرمائے جن کا اس تعصب اور غلو پسندی سے بھری ہوئی دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں: مدینے کے سب سے قریب ترین پڑوسی یہود تھے، یہ لوگ اگرچہ درپردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے، لیکن انہوں نے اب تک کسی محاذ آرائی اور جھگڑے کا اظہار نہیں کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا، جس میں انہیں دین ومذہب اور جان ومال کی مطلق آزادی دی گئی تھی اور جلاوطنی، ضبطی، جائیداد یا جھگڑے کی سیاست کا کوئی رُخ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔
یہ معاہدہ اسی معاہدے کے ضمن میں ہوا تھا جو خود مسلمانوں کے درمیان باہم طے پایا تھا اور جس کا ذکر قریب ہی گزر چکا ہے، آگے اس معاہدے کی اہم دفعات پیش کی جارہی ہیں۔
①: بنوعوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امّت ہوں گے، یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر، خود ان کا بھی یہی حق ہوگا اور ان کے غلاموں اور متعلقین کا بھی اور بنوعوف کے علاوہ دوسرے یہود کے بھی یہی حقوق ہوں گے۔
②: یہود اپنے اخراجات کے ذِمے دار ہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے۔
③: جو طاقت اس معاہدے کے کسی فریق سے جنگ کرے گی، سب اس کے خلاف آپس میں تعاون کریں گے۔
④: اس معاہدے کے شرکاء کے باہمی تعلقات خیر خواہی، خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے، گناہ پر نہیں۔
⑤: کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا۔
⑥: مظلوم کی مدد کی جائے گی۔
⑦: جب تک جنگ بر پا رہے گی، یہود بھی مسلمانوں کے ساتھ خرچ برداشت کریں گے۔
⑧: اس معاہدے کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا۔
⑨: اس معاہدے کے فریقوں میں کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہوجائے جس میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا فیصلہ اللہ عزّوجل اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے۔
⑽: قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
⑾: جو کوئی یثرب پر دھاوا بول دے اس سے لڑنے کے لیے سب باہم تعاون کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا۔
⑿: یہ معاہدہ کسی ظالم یا مجرم کے لیے آڑ نہ بنے گا۔
(ابن ہشام ۱/ ۵۰۳ ، ۵۰۴)
اس معاہدے کے طے ہوجانے سے مدینہ اور اس کے اطراف ایک وفاقی حکومت بن گئی، جس کا دارالحکومت مدینہ اور جس کے سربراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور جس میں کلمہ نافذہ اور غالب حکمرانی مسلمانوں کی تھی اور اس طرح مدینہ واقعتا اسلام کا دارالحکومت بن گیا۔
امن وسلامتی کے دائرے کو مزید وسعت دینے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آئندہ دوسرے قبائل سے بھی حالات کے مطابق اسی طرح کے معاہدے کیے، جن میں سے بعض بعض کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں