سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔قسط: 111
اس سے پہلے کہ ہم کفار اور مسلمانوں کی دن بدن بڑھتی کشا کش کے مزید واقعات بیان کریں، چند ضمنی لیکن بہت اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے :
بئر رومہ:
مدینہ کے اکثر کنووں کا پانی کھارا تھا، جس کی وجہ سے مہاجرین کو پینے کے لئے میٹھا پانی نہیں ملتا تھا، وہاں ایک بڑا کنواں "بئر رومہ" نام کا تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا جو اس کا پانی مسلمانوں کو بیچا کرتا تھا، یہ پانی بہت لطیف اور میٹھا تھا، غریب مہاجرین کے لئے یہ پانی خرید کر پینا بڑا دشوار تھا، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کنویں کو خریدنے کی ترغیب دی اور اس کے خریدار کو جنت کی بشارت دی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کو سو اونٹوں یا بارہ ہزار درہم کے عوض یہودی سے نصف کنواں خرید کر وقف کردیا، نصف حصہ پر پانی لینے والوں کا اژدحام رہنے سے یہودی نے بقیہ نصف کنواں بھی آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا۔
صُفّہ اور اصحاب صُفّہ:
مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنا کر اس پر کھجور کے پتوں کا چھپر ڈال دیا گیا، اسے "صُفّہ" کہتے تھے، قدیم مؤرخین نے اسے ظِلّہ بھی لکھا ہے، یہ ایک طرح سے اقامتی درس گاہ تھی، یہاں دن میں تعلیم دی جاتی اور رات میں بے آسرا مہاجر شب بسر کرتے، یہ اُن مسلمانوں کی قیام گاہ تھی جنہوں نے اپنی زندگی تعلیم دین، تبلیغ اسلام، جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لئے وقف کر دی تھی، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس کے منتظم اعلیٰ اور نگراں تھے، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام بھی درس و تدریس کا فرض انجام دیتے تھے۔
صُفّہ کی درس گاہ سے بڑے بڑے باکمال صحابہ نکلے جن میں مقیم اور غیر مقیم دونوں شامل ہیں، جیسے فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام المحدثین حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستّر (70) اصحاب صُفّہ میں سے کسی ایک کو بھی نہ پایا جس کے پاس لمبی چادر ہو، یا تہ بند ہوتی تھی یا چھوٹی چادر جس کا سرا وہ اپنی گردن سے باندھ لیتے تھے اور دوسرا ہاتھ سے تھام لیتے تھے کہ کہیں ستر نہ کھل جائے، یہ چادر کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتی تھی اور کسی کے ٹخنوں تک، یہ اپنی بے سرو سامانی کی وجہ سے زراعت یا تجارت نہ کر سکتے تھے، مگر کچھ لوگ جنگل میں نکل جاتے اور لکڑیاں چن کر اور انہیں بیچ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے، تاہم کئی سو صحابہ کی یہ جماعت اس طرح اپنی معاشی ضروریات پوری نہ کر سکتی تھی، اس لئے فقر و فاقہ کی زندگی گزارتے، مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روادار نہ ہوتے، بلکہ دوسروں پر اپنی محتاجی و پریشانی کا اظہار بھی نہ ہونے دیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی فکر سے کس طرح آزاد رہ سکتے تھے، ایک جماعت کو خود اپنا مہمان بنا لیتے اور اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور بقیہ کو دوسرے مالدار صحابہ کے حوالہ کر دیتے۔ (زرقافی، ج ۱، بحوالہ سیرت طیبہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رات گئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: "میرے اصحاب کو بلا لو۔" ان میں سے اکثر سو گئے تھے، میں نے ایک ایک کو جگایا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بڑے پیالہ میں جَو کا تیار کیا ہوا کھانا سامنے رکھ دیا اور اس پر ہاتھ رکھ کر برکت کی دعا فرمائی، ہم سب نے اسے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی وہ اتنا کا اتنا ہی باقی رہا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں بھی ان کی تسلی اور دل دہی فرماتے رہتے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل صُفّہ کی محتاجی اور پریشان حالی کو دیکھا تو ان کو اس طرح تسلی دی:
" اے اہلِ صُفّہ! بشارت ہو ( تم ہی نہیں ) میری اُمت میں سے جو کوئی فقر و فاقہ میں صبر و شکر کی زندگی اس طرح بسر کرے گا جس طرح تم کرتے ہو، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا۔"
اصحاب صُفّہ کی مجموعی تعداد جو مختلف اوقات میں صُفّہ میں مقیم رہی، چار سو کے قریب ہے۔
ازواج مطہرات کے حجرے:
مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس سے متصل دو حجرے بنائے گئے، جن میں سے ایک حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے تھا، یہ حجرے کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے، ان کی چھتیں کھجور کے پتوں کی تھیں، چھ یا سات ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے تھے، اونچائی اتنی تھی کہ آدمی کھڑے ہو کر ہاتھ سے چھو سکتا تھا، دروازوں پر سیاہ بالوں کے کمبل یا ٹاٹ کے پردے تھے، مسجد سے متصل حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکانات تھے، اس وقت تک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عقد نکاح میں آچکی تھیں، اس لئے دو ہی حجرے بنائے گئے، جب اور ازواج آتی گئیں تو اور کمرے بنتے گئے، رفتہ رفتہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے تمام مکان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نذر کر دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا ایک دروازہ مسجد کی طرف تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دروازہ سے مسجد میں تشریف لاتے اور جب اعتکاف میں ہوتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دھو دیتیں۔
حجروں کی ترتیب:
ازواجِ مطہرات کے حجروں کی ترتیب یہ تھی: حضرت اُم سلمہ، حضرت اُم حبیبہ، حضرت زینب، حضرت جویریہ، حضرت میمونہ، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہم کے مکانات شامی جانب تھے اور حضرت عائشہ، حضرت صفیہ، حضرت سودہ رضی اللہ عنہم مقابل جانب تھیں۔
(طبقات بن سعد ، سیرۃ البنی)
جس وقت حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا حرم مبارک میں داخل ہوئیں تو اس وقت جو حجرے موجود تھے، ان میں کوئی خالی نہ تھا، اس لئے ان کے قیام کا علیحدہ انتطام کیا گیا تھا اور وہ مدینہ کے مضافات میں ایک باغیچہ میں رہتی تھیں۔
(ضیاء الدین کرمانی ، ابدی پیغام کے آخری پیغامبر)
نماز کی رکعتوں میں اضافہ:
ہجرت سے پہلے نماز مغرب کے سوا ہر نماز میں صرف دو رکعتیں فرض تھیں، مدینہ آنے کے بعد ایک ماہ گزرا تو ظہر، عصر اور عشاء میں دو دو رکعت کے اضافہ کا حکم آیا، اوقات نماز کے بارے میں روایت ہے کہ نماز فجر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے پڑھی تھی، ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بطور شکرانہ پڑھی تھی، اس لئے کہ نمرود کے آتش کدہ کو اللہ تعالیٰ نے جب گلزار بنایا، اس وقت دوپہر کا وقت تھا، نماز عصر سب سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ادا کی تھی، اس لئے کہ ان کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد ان کے صحیح و سلامت ہونے کی اطلاع حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت یعقوب کو دی تو اس وقت عصر کا وقت تھا، مغرب کی نماز پہلے داؤد علیہ السلام نے ادا کی تھی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ جب قبول کی، اس وقت مغرب کا وقت تھا، حضرت داؤد نے شکرانہ میں نماز مغرب پڑھی، حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے تو رات کا وقت تھا، انہوں نے شکرانے میں پہلی نماز عشاء ادا کی، اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب میں ان پانچوں نمازوں کو اُمت محمدی کے لئے فرض کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ خلاصہ ٔ عبادات انبیاء ہے۔ (واللہ اعلم)
(مصباح الدین شکیل: سیرت احمد مجتبیٰ)
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں