سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 103
قریش مکہ کا رویہ:
بیرونِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے، دہشت مچانے، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے، طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے، منظم اور وسیع پروپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے، پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کرلیا اور مسلمانوں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، بلکہ جس کو پایا قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔
پھر اسی پر بس نہ کیا، بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو بیخ و بُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُو بہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں، بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جا پہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا، یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا، اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکا اور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا، جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں، جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔
درحقیقت مکے اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالا جائے، مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے، اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں، جس طرح انہیں ستایا گیا تھا، اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں، اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں، تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے۔
یہ تھے وہ قضایا اور مسائل جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یا سختی ودرشتی، جس سلوک کی مستحق تھی، اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا۔ یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ آگئی۔
اگلی تحاریر میں انہی باتوں کی تفصیلات ہدیۂ قارئین کی جائیں گی۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں