سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 98


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 98

مدینہ کے بیرونی عرب قبائل کی اہمیت:

مدینہ منورہ سے باہر تمام عربی قبائل باوجود اس کے کہ سب کے سب ایک قوم تھے اور ایک واحد ملک کے باشندے تھے، دن رات خانہ جنگیوں میں مبتلا رہتے تھے اور سارا ملک قتل، غارت گری، سفاکی اور خوں ریزی کا آماجگاہ بنا ہوا تھا، ملک کا ذریعہ معاش غارت گری کے بعد فقط تجارت تھی، مگر تجارت کے قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار تھا، جب تک ان کے پاس مختلف قبائل کے خفارئے (اجازت نامہ، رہ گزر یا محافظ دستے) نہ ہوں، جیسا کہ ابن قتیبہ کے استاد محمد بن حبیب (المتوفی ۲۴۵ہجری) نے اپنی کتاب "کتاب المحبر" میں لکھا ہے، اس کے اقتباس کو "عہد نبوی میں نظام حکمرانی" (ڈاکٹر حمیدﷲ) سے انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے:

"جو تاجر بھی یمن اور حجاز سے نکلتا تو وہ اس وقت تک قریشی خفارئے یعنی محافظ دستہ کا محتاج رہتا جب تک وہ مغربی قبائل میں رہے، کیونکہ ایک مضری قبیلہ دوسر ے مضری قبیلہ کے تاجروں کو نہ ستاتا، مزید برآں جن جن قبائل سے مضریوں کی حلیفی تھی ان کے ہاں بھی ان کو امن رہتا اور یہ باہمی امن کے اصول پر مبنی تھا، چنانچہ قبائل کلب ان کو مضری قبیلہ بنو تمیم سے حلیفی کے باعث نہ ستاتے اور قبائل طے بھی ان کو مضری قبیلہ بنو اسد سے حلیفی کے باعث نہ چھیڑتے اور مضری قبائل کہا کرتے تھے کہ قریش نے ہمارا وہ قرض ادا کردیا جو حضرت اسماعیل سے ہم کو وراثتاً مذمت کی صورت میں ملا تھا، جب یہ آگے بڑھ کر عراقی سمت میں جاتے اور بنی عمرو بن مرثد سے خفارا حاصل کر لیتے تو تمام قبائل ربیعہ میں وہ کافی ہوتا، جو تاجر دومتہ الجندل جاتے ان کو بھی قریش ہی سے خفارہ حاصل کرنا ہوتا، رابیہ جو حضرموت میں واقع ہے، اگر وہاں جانا ہوتا تو قریش وہاں کا قبیلہ آکل المرار سے خفارا حاصل کرلیتے اور باقی لوگ آل مسروق سے۔ (کتاب المحبر)

پھر دوسری جگہ لکھا ہے: "اگر مسافر بنی عمرو بن مرثد کا خفارا حاصل کرلیتے تو اس پورے علاقہ میں جہاں قبائل ربیعہ بستے تھے، انہیں حفاظت حاصل تھی، اگر بحرین کے سوق مشقر جانا ہوتا تو قریشی خفارہ ہی حاصل کرلیا جاتا، اگر جنوبی عرب کے سوق مہرہ کو جانا ہوتا تو بنی محارب کا بدرقہ حاصل کیا جاتا، حضرموت کے سوق رابیعہ کو جانے کے لئے قریش قبیلہ آکل المرار کا خفارا حاصل کرتے اور دیگر لوگ کندہ کے آل مسروق کا، اس طرح دونوں ہی قبائل کو عزت حاصل تھی، لیکن قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرار کو اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہوگئی۔

حاصل یہ کہ عربوں میں تجارتی قافلوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ گزرنے اور پہنچنے کے لئے خفارا حاصل کرنا پڑتا تھا اور یہ ان کے ہاں ایک مستقل ادارہ بن گیا تھا اور عدنان اور قحطان اور مضر و ربیعہ کے سب قبائل اس میں داخل تھے، ملک کی بدامنی کی وجہ سے عبدالقیس جو بحرین کا طاقتور قبیلہ تھا، 5 ہجری تک مضری قبائل کے ڈر سے اشہر حرم کے سوا اور مہینوں میں حجاز کا رخ نہیں کرسکتا تھا۔

بخاری شریف میں ہے کہ جب وفد عبدالقیس مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: "یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم لوگ صرف شہر حرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں، ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ ہے، ہم لوگوں کو فیصل شدہ امور بتا دیجیے تاکہ ہم ان لوگوں کو بتائیں جو حاضر نہیں ہوسکتے اور اس کے سبب سے ہم لوگ جنت میں داخل ہوں۔" پھر ان اشہر حرم کا یہ حال تھا کہ اس میں وہ جب چاہتے تھے رد و بدل کردیتے تھے اور اپنی غارت گری کا موقع نکال لیتے تھے، ابو علی قالی نے لکھا ہے کہ یہ رد و بدل اس لئے کرتے تھے کہ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلسل تین مہینے ان پر بغیر غارت گری کے گزر جائیں، کیونکہ غارت گری ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
(کتاب الا مالی)

پھر اشہر حرم (حرمت والے مہینے) کے احترام کا یہ حال تھا کہ ابن عبد ربہ نے "عقد الفرید" میں لکھا ہے کہ قبیلہ طے اور قبیلہ قشعم کے دو ضرب المثل لٹیرے قبائل اشہر حرم کی حرمت و امتناع کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

بہر حال مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ سے باہر قبائل عرب میں گزرنا اور عالمی مشن کی دعوت دینا دشوار ہی نہیں ناممکن تھا، قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس بے بسی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

"یاد کرو جب تم تھوڑے اورکمزور تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک نہ لیں-" (سورۃ الانفال)

==================> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں