سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 121
غزوۂ بدرکُبریٰ ۔۔۔ اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ:
غزوۂ بدر کا پس منظر:
سَریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا، انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے، انہیں معلوم ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے، مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں، قید کرسکتے ہیں، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جا سکتے ہیں۔
مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز نہ آنے اور جُہَینہ اور بنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا، چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔
باقی رہے مسلمان تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سریہ کے بعد شعبان 2 ھ میں ان پر جنگ فرض قرار دے دی اور اس سلسلے میں کئی واضح آیات نازل فرمائیں، ارشاد ہوا:
''اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو، یقینا اللہ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وہاں سے تم بھی انہیں نکال دو اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں، پس اگر وہ (وہاں) قتال کریں تو تم (وہاں بھی) انہیں قتل کرو، کافروں کی جزا ایسی ہی ہے، پس اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ غفور رحیم ہے، اور ان سے لڑائی کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے، پس اگر وہ باز آجائیں تو کوئی تَعدّی نہیں ہے، مگر ظالموں ہی پر۔'' (۲: ۱۹۰تا ۱۹۳)
اس کے جلد ہی بعد دوسری نوع کی آیات نازل ہوئیں، جن میں جنگ کا طریقہ بتایا گیا اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اور بعض احکامات بھی بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:
''پس جب تم لوگ کفر کرنے والوں سے ٹکراؤ تو گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب انہیں اچھی طرح کچل لو تو جکڑ کر باندھو، اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لو، یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے، یہ ہے (تمہارا کام ) اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (وہ چاہتاہے کہ ) تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز رائیگاں نہ کرے گا، اللہ ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کا حال درست کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس سے ان کو واقف کرچکا ہے، اے اہل ایمان! اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم ثابت رکھے گا۔'' (۴۷: ۴- ۷ )
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جن کے دل جنگ کا حکم سن کر کانپنے اور دھڑکنے لگے تھے، فرمایا:
''تو جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہورہی ہو۔'' (۴۷: ۲۰)
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی فرضیت وترغیب اور اس کی تیاری کا حکم حالات کے تقاضے کے عین مطابق تھا، حتی کہ اگر حالات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی کمانڈر ہوتا تو وہ بھی اپنی فوج کو ہر طرح کے ہنگامی حالات کا فوری مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتا، لہٰذا وہ پروردگارِ برتر کیوں نہ ایسا حکم دیتا جو ہر کھلی اور ڈھکی بات سے واقف ہے، حقیقت یہ ہے کہ حالات حق وباطل کے درمیان ایک خون ریز اور فیصلہ کن معرکے کا تقاضا کررہے تھے، خصوصاً سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے بعد جو کہ مشرکین کی غیرت وحمیت پر ایک سنگین ضرب تھی اور جس نے انہیں کبابِ سیخ بنا رکھا تھا۔
احکامِ جنگ کی آیات کے سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ خون ریز معرکے کا وقت قریب ہی ہے اور اس میں آخری فتح ونصرت مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگی، آپ اس بات پر نظر ڈالیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں سے مشرکین نے تمہیں نکالا ہے، اب تم بھی وہاں سے انہیں نکال دو، پھر کس طرح اس نے قیدیوں کے باندھنے اور مخالفین کو کچل کر سلسلہ ٔ جنگ کو خاتمے تک پہنچانے کی ہدایت دی ہے جو ایک غالب اور فاتح فوج سے تعلق رکھتی ہے، یہ اشارہ تھا کہ آخری غلبہ مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگا، لیکن یہ بات پردوں اور اشاروں میں بتائی گئی تاکہ جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جتنی گرمجوشی رکھتا ہے، اس کا عملی مظاہرہ بھی کرسکے۔
پھر انہی دنوں شعبان 2 ھ فروری 624 ء میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قبلہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو بنایا جائے اور نماز میں اسی طرف رخ پھیرا جائے، اس کا فائدہ ہوا کہ کمزور اور منافق یہود جو مسلمانوں کی صف میں محض اضطراب وانتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوگئے تھے، کھل کر سامنے آگئے اور مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر اپنی اصل حالت پر واپس چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کی صفیں بہت سے غداروں اور خیانت کوشوں سے پاک ہوگئیں۔
تحویل قبلہ میں اس طرف بھی ایک لطیف اشارہ تھا کہ اب ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جو اس قبلے پر مسلمانوں کے قبضے سے پہلے ختم نہ ہوگا، کیونکہ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ کسی قوم کا قبلہ اس کے دشمنوں کے قبضے میں ہو اور اگر ہے تو پھر ضروری ہے کہ کسی نہ کسی دن اسے آزاد کرایا جائے۔
ان احکام اور اشاروں کے بعد مسلمانوں کی نشاط میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے جہاد فی سبیل اللہ کے جذبات اور دشمن سے فیصلہ کن ٹکر لینے کی آرزو کچھ اور بڑھ گئی۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں