سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 118
اذان کی ابتداء:
دوسرا اہم واقعہ اذان کی ابتداء کا ہے:
اسلام کی تمام عبادات کا اصلی مرکز وحدت واجتماع ہے، شروع میں کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کے لئے مسلمانوں کو بلانے میں دشواری تھی، لوگ وقت کا اندازہ کرکے آتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پسند نہ تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال کیا کہ کچھ لوگ مقرر کردئیے جائیں جو وقت پر لوگوں کو گھروں سے بلا لائیں، لیکن اس میں زحمت تھی، صحابہ کو بلا کر مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائے دیں، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں ایک علم کھڑا کردیا جائے جسے دیکھ کر لوگ آتے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ ناپسند فرمایا۔
عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں اعلان نماز کے جو طریقے ہیں، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کئے گئے، یہودی ایک بگل بجا کر لوگوں کو اپنی نماز کی طرف بلاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا طریقہ کرنے کو پسند نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے عرض کیا گیا کہ ناقوس بجا کر مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دی جائے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حال میں فکر مند تھے کہ عبدﷲ بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا۔
انہوں نے عرض کیا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! رات کو میرے پاس خواب میں کوئی آیا جو سبز لباس پہنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوا تھا، میں نے کہا یا عبدﷲ! کیا یہ ناقوس فروخت کروگے؟ اس نے پوچھا: "کیا کروگے؟" میں نے بتایا کہ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز کی طرف بلائیں گے، اس نے کہا: "کیا میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟" پوچھا: "وہ کیا ہے؟" اس نے بتایا کہ تم (نماز کے لئے اس طرح اذان) کہو:
ﷲ اکبر (چاربار) اشھد ان لاالہ الا ﷲ (دوبار) اشھد ان محمد رسول ﷲ (دوبار) حی علی الصلوۃ (دوبار) حی علی الفلاح (دوبار) ﷲ اکبر (دوبار) لا الہ الا ﷲ (ایک بار)"
جب عبدﷲ بن زید رضی اللہ عنہ نے یہ خواب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ان شاء ﷲ یہ خواب سچا ہے، پس بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ ان کلمات سے اذان کہیں، اس لئے کہ وہ بلند آواز ہیں۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اپنے گھر میں سنی تو جلدی سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "فللّہ الحمد۔ ﷲ کا ہی شکر ہے۔" اس دن سے اذان کا یہ طریقہ شروع ہوا۔ (سیرت النبی , علامہ ابن کثیر)
جب مؤذن اذان دے تو سننے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ: "جب اذان سنے تو مؤذن کے مثل اسے دُہراتے رہو اور جب مؤذن حی علی الصلٰوۃ اور حی علی الفلاح کہے تو اس کے جواب میں'' لاحو ل ولا قوۃ الا با للہ'' پڑھا کرو اور اذان کے بعد خاص دعا پڑھا کرو۔"
مسجد نبوی کے دو مؤذن تھے، ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ تھے، نماز فجر کی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ تہجد کے وقت دیا کرتے تھے، صبح صادق ہوتے ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اذان دیا کرتے، بعد میں بھی مدینہ میں فجر کی دو اذانوں کا معمول رہا، نماز جمعہ کی فرضیت کے بعد اس کی اذان اس وقت شروع ہوئی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے آکر مسجد میں بیٹھ جاتے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جمعہ کے دن پہلی اذان دینے کا حکم دیا، تا کہ لوگ مسجد میں آنے میں جلدی کریں۔
==================>> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں