سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 99


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 99

مدنی دور کی ابتداء:

گزشتہ صفحات میں مذکور حالات کو پیش نظر رکھ کر اب مدنی زندگی کا سن وار تفصیلی جائزہ ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی زندگی کس طرح گزاری، لیکن یہ ضرور پیش نظر رہے کہ مدینہ منورہ کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے از ابتدا تا انتہا جو کچھ کیا، چاہے مدافعت کی شکل میں یا پیش قدمی کی شکل میں یا تادیبی شکل میں کیا، اس کی غایت صرف یہ تھی کہ لوگ عالمی مشن کی عالمی دعوت کی تبلیغ کی راہ میں مزاحمت سے باز آجائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا اور ان جیسے دشمنان اسلام کا استحصال کردیا جائے یا ان کو تباہ و برباد کردیا جائے، کیونکہ یہ رحمتہ اللعالمین کے مزاج کے منافی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہمیشہ ان کی ہدایت رہتی تھی، ان کی تباہی نہیں رہتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری مدنی زندگی میں خود نہ کوئی ایسا فیصلہ کیا، نہ ایسا منصوبہ بنایا، نہ ایسا عملی اقدام کیا جس کی بنیاد کسی جماعت کے استحصال اور بالکلیہ تباہ و برباد کردینے پر ہو یا جبراً اسلام پر ہو۔

کفار عرب اور قریش کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست یہ تھی کہ ان کو محفوظ رکھ کر ان کا ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ اسلام کی مزاحمت سے باز آجائیں یا مصالحت کرلیں یا اسلام قبول کرلیں، وہ سارے غزوات اور سریئے جو سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں، ان سب کی بنیاد اس پر تھی کہ خبر رساں جماعت اور جاسوس سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کی اطلاع ملتی کہ:

۱) فلاں جگہ، فلاں جماعت یا فلاں قبیلہ اسلام دشمنی میں یہ منصوبہ بنا رہا ہے۔
۲) یا قریش کا فلاں قبیلہ فلاں راہ سے فلاں روز گزرے گا۔
۳) یا فلاں قبیلہ یا جماعت حملہ یا غارت گری کا ارادہ کر چکی ہے۔
۴) یا مسلمانوں یا اسلام کے استحصال کی خاطر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے کوئی جماعت فوج لے کر آرہی ہے تو حسب حال ان کی مدافعت، ان کی تادیب، ان کے منصوبہ میں ناکام کرنے کے لئے فوجی دستہ بھیجے جاتے تھے۔

کبھی کبھی مخالفین اسلام کی نقل و حرکت کی تفتیش کے لئے بھی سریئے بھیجنے پڑتے تھے، لیکن قریش اور قبائل عرب مسلمانوں کا اور اسلام کا استحصال کرنے کے لئے چڑھائی کرکے حملہ آور ہوتے تھے تو چار و ناچار مجبور ہوکر مردانہ وار مدافعت کے لئے سر اور دھڑ کی بازی ﷲ کے بھروسہ پر لگا دیتے تھے۔ (پیغمبر عالم)

مدنی عہد کو تین مرحلو ں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

(1) اسلامی معاشرے کی تاسیس اور اسلامی دعوت کے قابو پانے کا مرحلہ: اس میں فتنے اور اضطرابات برپا کیے گئے، اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور دعوت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے چڑھائیاں کیں، یہ مرحلہ مسلمانوں کے غلبے اور صورت حال پر ان کے قابو پانے کی صورت میں صلح حدیبیہ ذی قعدہ 6ھ پر ختم ہو جاتا ہے۔

(2) دوسرا مرحلہ جس میں بت پرست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی: شاہان عالم کو اسلام کی دعوت دی گئی اور سازشوں کے اطراف کا خاتمہ کیا گیا، یہ مرحلہ فتح مکہ رمضان 8 ھ پر منتہی ہوتا ہے۔

(3) تیسرا مرحلہ جس میں خلقت اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئی: یہی مرحلہ مدینہ میں قوموں اور قبیلوں کے وفود کی آمد کا بھی مرحلہ ہے، یہ مرحلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے اخیر یعنی ربیع الاول 11 ھ تک کو محیط ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں