سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 101
ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات②:
دوسری قوم (یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے) کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی، کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کررہے تھے، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے، اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے۔
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے، لیکن انہیں مَدّمقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے، ان میں سرِفہرست عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔
یہ وہ شخص ہے جس کو جنگِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا، حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے، لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا، تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے، یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگیا، اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے، لہٰذا وہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا۔
اس کے باوجود جب اس نے جنگِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا، لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا، اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا، اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے، مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا، یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنا لیتے تھے۔
تیسری قوم یہود تھی، جیسا کہ گزرچکا ہے، یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے، یہ درحقیقت عبرانی تھے، لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی، یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے، بلکہ اپنی اسرائیلی یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے، حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے، جس کا مطلب ان کے نزدیک 'بدھو، وحشی، رذیل، پسماندہ اور اچھوت' تھا، ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے، جیسے چاہیں کھائیں، چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ O
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں..'' (۳: ۷۵)
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں، ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی، لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ، انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے۔
یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی، غلّے، کھجور، شراب اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی، یہ غلے، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے،اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے، جن میں وہ سرگرم رہتے تھے، وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے، بلکہ وہ سود خور بھی تھے، اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے، جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے، ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے۔
یہ لوگ دسیسہ کاریوں، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے، ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا، اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی، کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشا دیکھتے، البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے، تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہرا نفع کماتے رہتے، ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے، بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں