سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 117


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 117

تحویل قبلہ:

سابقہ اقساط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش اب جنگ کے میدان تک پہنچ چکی تھی اور کوئی بڑا جنگی معرکہ وقوع پذیر ہوا چاہتا تھا اور ایسا ہوا بھی اور کفر واسلام بدر کے میدان میں پہلی بار ٹکرا گئے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم غزوہ بدر کی تفصیلات بیان کریں، کچھ ضمنی لیکن اہم واقعات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، ان کے ذکر کے بعد ان شاء اللہ غزوہ بدر کا تفصیلی بیان ہوگا۔

پہلا اہم واقعہ قبلہ کی تبدیلی کا ہے:

مکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوتا تھا، جیسا کہ امام احمد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، جب ہجرت کے بعد مدینہ چلے آئے تو دونوں (بیت ﷲ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنا ناممکن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 16 یا 17 ماہ بیت ﷲ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ (ابن کثیر)

مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو ضرورتیں ایک ساتھ پیش تھیں، ملت ابراہیمی کی تأسیس و تجدید کے لحاظ سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کی ضرورت تھی، لیکن مشکل یہ تھی کہ قبلہ کی جو اصلی غرض ہے یعنی امتیاز اور اختصاص، وہ نہیں حاصل ہوتی تھی، کیونکہ مشرکین اور کفار بھی کعبہ ہی کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے، اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا کرتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے۔

مدینہ میں دو گروہ آباد تھے، مشرکین جن کا قبلہ کعبہ تھا اور اہل کتاب جو بیت المقدس کی جانب نماز ادا کرتے تھے، شرک کے مقابلہ میں یہودیت اور نصرانیت دونوں کو ترجیح تھی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً 16 مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی، مزید مکہ میں اسلام لانے والے اکثر و بیشتر چونکہ مشرکین مکہ میں سے تھے، اس لیے فی الحقیقت ان کا اس بات میں بڑا کڑا امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کس قدر اتشال امر الہی اور اتباع سنت رسول کا فراخدلانہ مظاہرہ کرتے ہیں، اپنا آبائی قبلہ بیت اللہ چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں یا پھر اسی آبائی قبلہ پر اڑے رہتے ہیں، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 میں اللہ نے اسی آزمائش کی طرف اشارہ فرمایا:

"اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو اللہ نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے، اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ رحمت ہے"۔(سورہ بقرہ , آیت 143)

ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہینچے تو صورت حال اب بالکل ہی بدل چکی تھی، مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی تھی، اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا گویا یہود کی قیادت و سیادت قبول کر لینے کے مترادف تھا، اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ محسوس فرمایا کہ یہودی کسی قیمت پر بھی اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں ہماری موافقت کرتے ہیں اور دین میں مخالفت جو عجیب قسم کا تضاد ہے، یہود کی یہ باتیں سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل چاہتا تھا کہ کعبہ ہی ہمارا قبلہ ہو جائے، اسی لیے بار بار بارگاہ الہی میں التجا کرتے تھے کہ تمام امم سابقہ کے قبلہ "خانہ کعبہ" ہی کو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کے لیے مستقل قبلہ قرار دے دیا جائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ حضرت بشر بن برا بن معرور رضی اللہ عنہ کے پاس دعوت میں تشریف لے گئے تھے، ظہر کا وقت آیا تو محلہ بنوسلمہ کی مسجد میں نماز پڑھانے کھڑے ہوئے، ایک روایت کے مطابق دو رکعتیں پڑھا چکے تھے اور دوسری روایت کے مطابق دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ تحویل قبلہ کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت 144 کے ذریعہ نازل ہوا۔

"ہم آپ کے چہرہ کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرا کریں اور آپ جہاں کہیں بھی ہوں، اس طرف پھیرا کریں۔" (سورہ بقرہ , 144)

اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے دوران ہی فی الفور کعبہ کی طرف رُخ موڑ لیا، جماعت میں موجود صحابہ کرام نے بھی اپنا رُخ کعبہ کی طرف کر لیا، اُس دن سے اس مسجد کا نام "مسجد قبلتین" پڑ گیا، قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلاف ہے، ابن جوزی نے "الوفا" میں منگل 15 شعبان 2 ہجری لکھی ہے، لیکن مؤرخین اور محدثین کا زیادہ رحجان ماہ رجب کی طرف ہے۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں