سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 110
مہاجرین کو قریش کی دھمکی:
اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کے لیے مکہ گئے اور اُمَیّہ بن خلف کے مہمان ہوئے، انہوں نے اُمیہ سے کہا: ''میرے لیے ذرا کوئی خلوت کا وقت دیکھو، میں بیت اللہ کا طواف کر لوں۔''
اُمیّہ دوپہر کے قریب انہیں لے کر نکلا تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی، اس نے (اُمیہ کو مخاطب کرکے) کہا: "ابو صفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟" اُمیہ نے کہا: "یہ سعد ہیں۔"
ابوجہل نے سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا: ''اچھا! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے امن واطمینان سے طواف کررہے ہو، حالانکہ تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ زعم رکھتے ہو کہ ان کی نصرت واعانت بھی کرو گے، سنو! اللہ کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جا سکتے تھے۔''
اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہا نے بلند آواز میں کہا: ''سن! اللہ کی قسم! اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو میں تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی۔''
(یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا تجارتی راستہ) (بخاری ، کتاب المغازی ۲/۵۶۳)
پھر قریش نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا: ''تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کرنکل آئے، ہم یثرب ہی پہنچ کر تمہارا ستیاناس کر دیتے ہیں۔'' (رحمۃ للعالمین ۱/۴۰۴)
اور یہ محض دھمکی نہ تھی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنے مؤکد طریقے پر قریش کی چالوں اور بُرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا کہ آپ یا توجاگ کر رات گزارتے تھے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہرا دیتے، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ رہے تھے کہ ہمیں ہتھیار کی جھنکار سنائی پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "کون ہے؟''
جواب آیا: ''سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ)۔
'' فرمایا: کیسے آنا ہوا؟"
بولے: ''میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خطرے کا اندیشہ ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں پہرہ دینے آگیا۔"
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دُعا دی، پھر سو گئے۔ (صحیح مسلم , ۲/۲۸۰ ، صحیح بخاری , ۱/۴۰۴)
یہ بھی یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام بعض راتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا، بلکہ مسلسل اور دائمی تھا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :
"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔" (۵: ۶۷)
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبے سے سر نکالا اور فرمایا: ''لوگو! واپس جاؤ، اللہ عزّوجل نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔" (جامع ترمذی : ابواب التفسیر ۲/۱۳۰)
پھر یہ خطرہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تک محدود نہ تھا، بلکہ سارے ہی مسلمانوں کو لاحق تھا، چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رُفقاء مدینہ تشریف لائے اور انصار نے انہیں اپنے یہاں پناہ دی تو سارا عرب اُن کے خلاف متحد ہوگیا، چنانچہ یہ لوگ نہ ہتھیار کے بغیر رات گزارتے تھے اور نہ ہتھیار کے بغیر صبح کرتے تھے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں