سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 176


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 176

لشکرِ کفار کی آمد:

مسلمانوں نے خندق کھودنے کا کام مسلسل جاری رکھا، دن بھر کھدائی کرتے اور شام کو گھر پلٹ آتے، یہاں تک کہ مدینے کی دیواروں تک کفار کے لشکر جرار کے پہنچنے سے پہلے مقررہ پروگرام کے مطابق خندق تیار ہوگئی۔ (ابن ہشام ۳/۲۲۰، ۲۲۱)

کام کے بوجھ اور موسم کی شدت کو ہلکا کرنے کے لئے حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت جعیل رضی اللہ عنہم رجز کے اشعار پڑھتے، تمام مسلمان اور خود اللہ کے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آواز میں آواز ملاتے، منافقین نے خندق کی کھدائی میں حصہ نہیں لیا، سَلع کی پہاڑ کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی گئی، مستورات شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دی گئیں اور چونکہ بنو قریظہ کے حملہ کا اندیشہ تھا، اس لئے حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ 200 آدمیوں کے ساتھ متعین کئے گئے کہ ادھر سے حملہ نہ ہونے پائے۔

قریش اپنا چار ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پہنچے تو رومہ، جرف اور زغابہ کے درمیان مجمع الاسیال میں خیمہ زن ہوئے اور دوسری طرف سے غطفان اور ان کے نجدی ہمسفر چھ ہزار کی نفری لے کر آئے تو احد کے مشرقی کنارے ذنب نقمی میں خیمہ زن ہوئے۔

منافقین اور کمزور نفس لوگوں کی نظر اس لشکر پر پڑی تو ان کے دل ہل گئے:

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ إِلَّا غُرُ‌ورً‌ا O

''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے , کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ محض فریب تھا..'' (۳۳: ۱۲)

لیکن جانثاران اسلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا، تقریباً ایک مہینہ تک اس سختی سے محاصرہ رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ پر تین تین دن کے فاقے گزر گئے، بہرحال اس لشکر سے مقابلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تین ہزار مسلمانوں کی نفری لے کرتشریف لائے اور کوہ سلع کی طرف پشت کرکے قلعہ بندی کی شکل اختیار کرلی، سامنے خندق تھی جو مسلمانوں اور کفار کے درمیان حائل تھی، مسلمانوں کا شعار (کوڈ لفظ) یہ تھا (حٓم لا ینصرون۔ حٓم، ان کی مدد نہ کی جائے) مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم کے حوالے کیا گیا تھا اور عورتوں اور بچوں کو مدینے کے قلعوں اور گڑھیوں میں محفوظ کردیا گیا تھا۔

جب مشرکین حملے کی نیت سے مدینے کی طرف بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوڑی سی خندق ان کے اور مدینے کے درمیان حائل ہے، مجبوراً انہیں محاصرہ کرنا پڑا، حالانکہ وہ گھروں سے چلتے وقت اس کے لیے تیار ہوکر نہیں آئے تھے کیونکہ دفاع کا یہ منصوبہ خود ان کے بقول ایک ایسی چال تھی جس سے عرب واقف ہی نہ تھے، لہٰذا انہوں نے اس معاملے کو سرے سے اپنے حساب میں داخل ہی نہ کیا تھا۔

مشرکین خندق کے پاس پہنچ کر غیظ وغضب سے چکر کاٹنے لگے، انہیں ایسے کمزور نقطے کی تلاش تھی جہاں سے وہ اتر سکیں، ادھر مسلمان ان کی گردش پر پوری پوری نظر رکھے ہوئے تھے اور ان پر تیر برساتے رہتے تھے، تاکہ انہیں خندق کے قریب آنے کی جرأت نہ ہو، وہ اس میں نہ کود سکیں اور نہ مٹی ڈال کر عبو ر کرنے کے لیے راستہ بنا سکیں۔

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ کوئی ہے جو باہر نکل کر محاصرین کی خبر لائے، تین دفعہ آپ نے یہ الفاظ فرمائے، یہ انتہائی پرخطر تھا، لیکن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو "حواری رسول" کا لقب دیا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں