سیرت النبی کریم ﷺ قسط 193


سیرت النبی کریم ﷺ قسط 193

مسلمانوں کی مدینہ سے روانگی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ مسجد حرام میں داخل ہوئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کنجی لی اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا.. پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفا کی..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ ادا فرمائیں گے لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرما دیا کہ لو گ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوں لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی.. ادھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کپڑے دھوئے , مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم رضی اللہ عنہ (یا نمیلہ لیثی رضی اللہ عنہ) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنی "قصواء" نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعدہ 6 ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں.. چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم رکاب تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوا اور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیا تھا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُخ مکہ کی جانب تھا.. ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدی کو قلاوے پہنائے (ہدی ، وہ جانور جسے حج وعمرہ کرنے والے مکہ یا منیٰ میں ذبح کرتے ہیں.. دور جاہلیت میں عرب کا دستور تھا کہ ہَدْی کا جانور اگر بھیڑ بکری ہے تو علامت کے طور پر گلے میں قلادہ ڈال دیا جاتا تھا اور اگر اونٹ ہے تو کوہان چیر کر خون پوت دیا جاتا تھا.. ایسے جانور سے کوئی شخص تعرض نہ کرتا تھا.. شریعت نے اس دستور کو برقرار رکھا) اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ نہیں کریں گے.. آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے..

عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش (حلیف قبائل) کو جمع کر رکھا ہے اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں.. (یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں.. یہ حبشی پہاڑ کی طرف منسوب ہیں جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے.. یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے.. اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے اور حبشی پہاڑ اپنی جگہ برقرار ہے , ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے..)

اس اطلاع کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا.. "کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمربستہ ہیں , ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں..؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کاٹ چکا ہوگا یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں اور جو راہ میں حائل ہو اس سے لڑائی کریں..؟"

اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں مگر ہم عمرہ ادا کرنے آئے ہیں , کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں.. البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے..

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا تب چلو.." چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا..ٓٓٓٓٓٓٓٓ

============>>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں