سیرت النبی ﷺ ۔۔۔ قسط: 179


سیرت النبی ﷺ ۔۔۔ قسط: 179

کفار کو شکست فاش:

مسلمانوں کی فوج میں منافقوں کی تعداد بھی شامل تھی جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے، لیکن موسم کی سختی، رسد کی قلت، متواتر فاقے، راتوں کی بے خوابی، بے شمار فوجوں کا ہجوم، ایسے واقعات تھے جنہوں نے ان کا پردہ فاش کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر اجازت مانگنی شروع کی کہ ہمارے گھر محفوظ نہیں، ہم کو شہر میں واپس جانے کی اجازت دی جائے۔

وہ کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہم سے وعدے کرتے تھے کہ ہم قیصر وکِسریٰ کے خزانے کھائیں گے اور یہاں یہ حالت ہے کہ پیشاب پائخانے کے لیے نکلنے میں بھی جان کی خیر نہیں، بعض منافقین نے اپنی قوم کے اشراف کے سامنے یہاں تک کہا کہ ہمارے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں، ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، کیونکہ ہمارے گھر شہر سے باہر ہیں، نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ بنو سلمہ کے قدم اکھڑ رہے تھے اور وہ پسپائی کی سوچ رہے تھے۔

ایک طرف لشکر کا یہ حال تھا، دوسری طرف بنو قریظہ کی بدعہدی سے ایک بہت بڑا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا، ان اعصاب شکن حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ کو کم نہیں ہونے دیا اور چند ایسے اقدامات کیے کہ دنوں میں جنگ کا پانسا پلٹ دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش آمدہ حالات سے نمٹنے کا پروگرام بنایا اور اسی پروگرام کے ایک جزو کے طور پر مدینے کی نگرانی کے لیے فوج کا ایک حصہ روانہ فرماتے رہے، تاکہ مسلمانوں کو غافل دیکھ کر یہود کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے، لیکن اس موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کی ضرورت تھی جس کے ذریعے دشمن کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے سے بے تعلق کردیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قریظہ اور قریش کے خطرے سے نبٹنے کے لیے مختلف اقدامات کررہے تھے کہ اس دوران غطفان کے ایک صاحب جن کا نام نُعَیم بن مسعود بن عامر اشجعی (رضی اللہ عنہ) تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں مسلمان ہوگیا ہوں، لیکن میری قوم کو میرے اسلام لانے کا علم نہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی حکم فرمایئے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہ کام لیا جس سے بنوقریظہ اور کفار کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تم فقط ایک آدمی ہو (لہٰذا کوئی فوجی اقدام تو نہیں کرسکتے) البتہ جس قدر ممکن ہو،۔ان میں پھوٹ ڈالو اور ان کی حوصلہ شکنی کرو، کیونکہ جنگ تو چالبازی کا نام ہے۔"

حضرت نعیم رضی اللہ عنہ فوراً ہی بنو قریظہ کے ہاں پہنچے، جاہلیت میں ان سے ان کا بڑا میل جول تھا، وہاں پہنچ کر انہوں نے کہا: "آپ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت اور خصوصی تعلق ہے، اچھا تو سنئے کہ قریش کا معاملہ آپ لوگوں سے مختلف ہے، یہ علاقہ آپ کا اپنا علاقہ ہے، یہاں آپ کا گھر بار ہے، مال ودولت ہے، بال بچے ہیں، آپ اسے چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتے، مگر قریش وغطفان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرنے آئے تو آپ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کا ساتھ دیا، ظاہر ہے ان کا یہاں نہ گھر بار ہے نہ مال ودولت ہے نہ بال بچے ہیں، اس لیے انہیں موقع ملا تو کوئی قدم اٹھائیں گے، ورنہ بوریا بستر باندھ کر رخصت ہوجائیں گے، پھر آپ لوگ ہوں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے، لہٰذا وہ جیسے چاہیں گے آپ سے انتقام لیں گے۔"

اس پر بنو قریظہ چونکے اور بولے: "نعیم! بتایئے اب کیا کیا جاسکتا ہے؟"
انہوں نے کہا: "دیکھئے! قریش جب تک آپ لوگوں کو اپنے کچھ آدمی یرغمال کے طور پر نہ دیں، آپ ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں۔"
قریظہ نے کہا: "آپ نے بہت مناسب رائے دی ہے۔"

اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سیدھے قریش کے پاس پہنچے اور بولے: "آپ لوگوں سے مجھے جو محبت اور جذبہ خیر خواہی ہے اسے تو آپ جانتے ہی ہیں، اچھا تو سنئے کہ یہود نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے رفقاء سے جو عہد شکنی کی تھی، اس پر وہ نادم ہیں اور اب ان میں یہ مراسلت ہوئی ہے کہ وہ (یہود) آپ لوگوں سے کچھ یرغمال حاصل کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کردیں گے اور پھر آپ لوگوں کے خلاف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنا معاملہ استوار کرلیں گے، لہٰذا اگر وہ یرغمال طلب کریں تو آپ ہرگز نہ دیں۔" اس کے بعد غطفان کے پاس بھی جا کر یہی بات دہرائی اور ان کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔

اس کے بعد جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات کو قریش نے یہود کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ ہمارا قیام کسی سازگار اور موزوں جگہ پر نہیں ہے، گھوڑے اور اونٹ مر رہے ہیں، لہٰذا ادھر سے آپ لوگ اور ادھر سے ہم لوگ اٹھیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کردیں، لیکن یہود نے جواب میں کہلایا کہ آج سنیچر کا دن ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ہم سے پہلے جن لوگوں نے اس دن کے بارے میں حکمِ شریعت کی خلاف ورزی کی تھی، انہیں کیسے عذاب سے دوچار ہونا پڑا تھا، علاوہ ازیں آپ لوگ جب تک اپنے کچھ آدمی ہمیں بطور یرغمال نہ دے دیں، ہم لڑائی میں شریک نہ ہوں گے۔

قاصد جب یہ جواب لے کر واپس آئے تو قریش اور غطفان نے کہا: "واللہ! نعیم نے سچ ہی کہا تھا۔" چنانچہ انہوں نے یہود کو کہلا بھیجا کہ اللہ کی قسم! ہم آپ کو کوئی آدمی نہ دیں گے، بس آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی نکل پڑیں اور دونوں طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہلہ بول دیا جائے۔

یہ سن کر قریظہ نے باہم کہا: "واللہ! نعیم نے تم سے سچ ہی کہا تھا۔" اس طرح دونوں فریق کا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھ گیا، ان کی صفوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔

اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرما رہے تھے: "اے اللہ! کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے! ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ! انہیں شکست دے اور جھنجوڑکر رکھ دے۔'' اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کررہے تھے: ''اے اللہ! ہماری پردہ پوشی فرما اور ہمیں خطرات سے مامون کردے۔'' (صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱/۴۱۱ کتاب المغازی ۲/۵۹۰)

بالآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی دعائیں سن لیں، چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑجانے اور بددلی وپست ہمتی سرایت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا، جس نے ان کے خیمے اکھیڑ دیئے، ہانڈیاں الٹ دیں، طَنابوں کی کھونٹیاں اکھاڑ دیں، کسی چیز کو قرار نہ رہا، انہیں ہلا ڈالا اور ان کے دلوں میں رعب اور خوف ڈال دیا، اس واقعہ نے فوجوں سے بڑھ کر کام دیا، اسی بناء پر قرآن مجید نے اس باد صرصر کو عسکر الٰہی سے تعبیر کیا ہے۔

بہر حال موسم کی سختی، محاصرہ کا امتداد، آندھی کا زور، رسد کی قلت، یہود کی علیحدگی، یہ تمام اسباب ایسے جمع ہو گئے تھے کہ قریش کے پایہ ثبات اب ٹھہر نہیں سکتے تھے، ابو سفیان نے فوج سے کہا: "رسد ختم ہو چکی، موسم کا یہ حال ہے، یہود نے ساتھ چھوڑ دیا، اب محاصرہ بیکار ہے۔" یہ کہہ کر واپسی کا طبل بجانے کا حکم دیا، غطفان بھی اس کے ساتھ روانہ ہو گئے، بنو قریظہ محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعو ں میں چلے آئے اور مدینہ کا افق ۲۰، ۲۵ دن تک غبار آلود رہ کر صاف ہو گیا۔

اسی سرد اور کڑکڑاتی ہوئی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حُذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا، موصوف ان کے محاذ میں پہنچے تو وہاں ٹھیک یہی حالت بپا تھی اور مشرکین واپسی کے لیے تیار ہوچکے تھے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واپس آکر ان کی روانگی کی اطلاع دی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی تو دیکھا کہ میدان صاف ہے اور اللہ نے دشمن کو کسی خیر کے حصول کا موقع دیئے بغیر اس کے غیظ وغضب سمیت واپس کردیا ہے، الغرض اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے لشکر کو عزت بخشی، اپنے بندے کی مدد کی اور تن تنہا سارے لشکر کو شکست دی، چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس آگئے۔

اس ایک ماہ کے محاصرہ میں کل چھ مسلمان شہید ہوئے، جن میں مسلمانوں کے ہاتھوں مرنے والے بھی شامل ہیں، ایک اندھیری رات میں دو مخالف سمتوں سے آنے والے پہرے دار دشمن سمجھ کر گتھ گئے، شعار پکارا تو لڑائی رکی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کو بھی "شہید فی سبیل اللہ" اور مجروح مسلمانوں کو "جراحت فی سبیل اللہ" کی بشارت دی، خون اور زخموں پر تاوان عائد نہیں فرمایا، کفار کے آٹھ آدمی قتل ہوئے، جن میں نامی گرامی پہلوان بھی تھے۔

جنگِ احزاب درحقیقت خساروں کی جنگ نہ تھی، بلکہ اعصاب کی جنگ تھی، اس میں کوئی خونریز معرکہ پیش نہیں آیا، لیکن پھر بھی یہ اسلامی تاریخ کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی، چنانچہ اس کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے اور یہ واضح ہوگیا کہ عرب کی کوئی بھی قوت مسلمانوں کی اس چھوٹی سی طاقت کو جو مدینے میں نشو نما پارہی ہے، ختم نہیں کرسکتی، کیونکہ جنگِ احزاب میں جتنی بڑی طاقت فراہم ہوگئی تھی، اس سے بڑی طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احزاب کی واپسی کے بعد فرمایا:

''اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے، اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائے گا۔'' (صحیح بخاری ۲/۵۹۰)

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں