سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 191


سیرت النبی کریم ﷺ ..قسط 191

6۔ ہجری کے سرایا:

سریہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ..

یہ سریہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شعبان 6 ھ میں بھیجا گیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے پگڑی باندھی اورلڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرلینا.. حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر تین روز پیہم اسلام کی دعوت دی.. بالآخر قوم نے اسلام قبول کرلیا.. پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے "تماضر بنت اصبغ" سے شادی کی.. یہی حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی ماں ہیں.. اس خاتون کے والد اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ تھے..

سریہ دیار بنی سعد.. (علاقہ فدک)

یہ سریہ شعبان 6 ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا.. اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کی ایک جمعیت یہود کو کمک پہنچانا چاہتی ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو سو آدمی دے کر روانہ فرمایا.. یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے.. آخر ایک جاسوس گرفت میں آیا اور اس نے اقرار کیا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجور کے عوض امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے.. جاسوس نے یہ بھی بتلایا کہ بنو سعد نے کس جگہ جتھ بندی کی ہے.. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر شب خون مار کر پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا.. البتہ بنو سعد اپنی عورتوں بچوں سمیت بھاگ نکلے.. ان کا سردار وبر بن علیم تھا..

سریہ وادی القریٰ..

یہ سریہ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (یا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) کے زیر قیادت رمضان 6 ھ میں روانہ کیا گیا.. اس کا سبب یہ تھا کہ بنو فزارہ کی ایک شاخ نے دھوکے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا.. لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا.. حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سریہ میں , مَیں بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا.. جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا اور چشمے پر دھاوا بول دیا.. میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے.. مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں , اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا.. تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے.. ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی.. اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی.. میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا.. ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں کیا کرتی تھی اور اس مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے..

سریہ عرنییّن..

یہ سریہ شوال 6 ھ میں حضرت کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ (یہ وہی حضرت کرز بن جابر فہری ہیں جنہوں نے غزوہ بدر سے پہلے غزوہ سفوان میں مدینہ کے چوپایوں پر چھاپہ مارا تھا.. بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور فتح مکہ کے موقع پر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے) کی قیادت میں روانہ کیا گیا.. اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا.. جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راعی کو قتل کردیا , اونٹوں کو ہانک لے گئے اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے.. اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی.. ان پر راستہ اندھا کردیا.. چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے.. ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے..

(زاد المعاد ۲/۱۲۲ مع بعض اضافات، صحیح بخاری ۲/۶۰۲)

یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ احزاب و بنی قریظہ کے بعد پیش آئے.. ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی.. صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں.. لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جا سکتا ہے جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور اکڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا..

حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جا رہے تھے.. اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوت اسلام کو توڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے..

یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی..

============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں