سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 201


سیرت النبی کریم ﷺ..قسط 201

بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط:

صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز تھا کیونکہ اسلام کی عداوت ودشمنی میں قریش سب سے زیادہ مضبوط ، ہٹ دھرم اور لڑاکا قوم کی حیثیت رکھتے تھے.. اس لیے جب وہ جنگ کے میدان میں پسپا ہو کرامن وسلامتی کی طرف آگئے تو احزاب کے تین بازوؤں قریش ، غطفان اور یہود میں سب سے مضبوط بازو ٹوٹ گیا اور چونکہ قریش ہی پورے جزیرۃ العرب میں بت پرستی کے نمائندے اور سربراہ تھے اس لیے میدان جنگ سے ان کے ہٹتے ہی بت پرستوں کے جذبات سرد پڑگئے اور دشمنانہ روش میں بڑی حد تک تبدیلی آگئی.. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس صلح کے بعد غطفان کی طرف سے بھی کسی بڑی تگ ودو اور شور وشر کا مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے کچھ کیا بھی تو یہود کے بھڑکانے پر..

جہاں تک یہود کا تعلق ہے تو وہ یثرب سے جلاوطنی کے بعد خیبر کو اپنی دسیسہ کاریوں اور سازشوں کا اڈہ بنا چکے تھے.. وہاں ان کے شیطان انڈے بچے دے رہے تھے اور فتنے کی آگ بھڑکانے میں مصروف تھے.. وہ مدینہ کے گرد وپیش آباد بدوؤں کو بھڑکاتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خاتمے یا کم ازکم انہیں بڑے پیمانے پر زک پہنچانے کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے.. اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلا اور فیصلہ کن راست اقدام اسی مرکز شروفساد کے خلاف کیا..

بہر حال امن کے اس مرحلے پر جو صلح حدیبیہ کے بعد شروع ہوا تھا , مسلمانوں کو اسلامی دعوت پھیلانے اور تبلیغ کرنے کا اہم موقع ہاتھ آگیا تھا.. اس لیے اس میدان میں ان کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں جو جنگی سرگرمیوں پر غالب رہیں.. لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس دور کی دو قسمیں کردی جائیں..

1.. تبلیغی سرگرمیاں اور بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خُطوط..
2.. جنگی سرگرمیاں..

پھر بے جا نہ ہوگا کہ اس مرحلے کی جنگی سرگرمیاں پیش کرنے سے پہلے بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خطوط کی تفصیلات پیش کردی جائیں کیونکہ طبعی طور پر اسلامی دعوت مقدم ہے بلکہ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں نے طرح طرح کی مشکلات ومصائب ، جنگ اور فتنے ، ہنگامے اور اضطرابات برداشت کیے تھے..

①: نجاشی شاہ حبش کے نام خط:

اس نجاشی کا نام " اَصْحَمہ بن اَبْجَر " تھا.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عَمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے بدست ۶ ھ کے اخیر یا ۷ ھ کے شروع میں روانہ فرمایا.. بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خط کی عبارت روایت کی ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا.. اس کا ترجمہ یہ ہے..

''یہ خط ہے محمد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ ِ حبش کے نام.. اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے.. میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں.. اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا اور ( میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا بندہ اور رسول ہے اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں.. لہٰذا تم اسلام لاؤ , سلامت رہوگے.. "اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے.. پس آگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں" اگر تم نے (یہ دعوت ) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے.. "

(مستدر ک حاکم ۲/۶۲۳،دلائل النبوۃ ، بیہقی ۲/۳۰۸)

ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی موجود ہے.. ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے.. دَورِ جدید کے اکتشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتاب کے اندر ثبت فرمایا ہے.. اس کا ترجمہ یہ ہے..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام..

اس شخص پرسلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں.. جو قدوس اور سلام ہے , امن دینے والا محافظ ونگراں ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں.. اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاک دامن مریم بتول کی طرف ڈال دیا اور اس کی روح اور پھونک سے مریم عیسیٰ کے لیے حاملہ ہوئیں جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا.. میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مدد کی جانب دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں ) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں اور میں نے تبلیغ ونصیحت کردی , لہٰذا میری نصیحت قبول کرو اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.."

(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی.. مولفہ ڈاکٹر حمید اللہ , ص ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۲۲، ۱۲۳ ، ۱۲۴، ۱۲۵، زاد المعاد میں آخری فقرہ والسلام علی من اتبع الہدی کے بجائے أسلم أنت ہے.. دیکھئے زاد المعاد ۳/۶۰)

ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا..

بہرحال جب عَمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا اور تخت سے زمین پر اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے..

بسم اللہ الرحمن الرحیم..
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے..

اے اللہ کے نبی ! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو.. وہ اللہ جس کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں.. اما بعد ! اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا جس میں آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ ذکر کیا ہے.. رب آسمان و زمین کی قسم ! آپ نے جو کچھ فرمایا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکہ بڑھ کر نہ تھے.. وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا ہے.. پھر آپ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کی اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں اور میں نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا..

(زادا لمعاد ۳/۶۱)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین ِ حبشہ کو روانہ کردے.. چنانچہ اس نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو کشتیوں میں ان کی روانگی کا انتظام کردیا.. ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور دوسری کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے , سیدھے مدینہ پہنچے.. (ابن ہشام ۲/۳۵۹)

مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب ۹ ھ میں وفات پائی.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی.. اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہو کر سریر آرائے سلطنت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں..

===============>> جاری ھے..

سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں