سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 203


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 203

شاہِ فارس خسرو پرویز کے نام خط:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط بادشاہ فارس کسرٰی ( خسرو ) کے پاس روانہ کیا، جو یہ تھا:

" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم "
محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی عظیم فارس کی جانب​!

اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف اللہ کا فرستادہ ہوں، تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافرین پر حق بات ثابت ہو جائے ( یعنی حجت تمام ہو جائے )، پس تم اسلام لاؤ سالم رہو گے اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہوگا۔''

اس خط کو لے جانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ( رضی اللہ عنہ ) کو منتخب فرمایا، انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا، اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعے کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ( رضی اللہ عنہ ) کو روانہ کیا، بہرحال! جب یہ خط کسرٰی کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے چاک کردیا اور نہایت متکبرانہ انداز میں بولا:

''میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے''

اور پھر وہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، چنانچہ اس کے بعد کسرٰی نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے، اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں، باذان نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کئے اور انہیں ایک خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وانہ کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسرٰی کے پاس حاضر ہو جائیں، جب وہ مدینہ پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا: "شہنشاہ کسرٰی نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعے حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پاس ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسرٰی کے رو برو حاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لئے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں، ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں

ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دل چسپ "مہم" در پیش تھی خود خسرو پرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑک رہا تھا، جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کرکے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات 10 جمادی الاولیٰ 7ھ کا واقعہ ہے۔ (فتح الباری 127/8)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا، چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس واقعے کی خبر دی، ان دونوں نے کہا کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نے آپ کی اس سے بہت معمولی بات بھی قابل اعتراض شمار کی ہے تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اسے میری اس بات کی خبر کردو اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی، جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جا کر رکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جا ہی نہیں سکتے۔

تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیر اقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنا دوں گا، اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا، تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے، شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا: ''اسے تاحکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔''

اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء ( جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہو گئے۔ (محاضرات خضری 147/1 ، فتح الباری 127،128/8 ، نیز دیکھئے رحمۃ اللعالمین)

================== جاری ہے ۔۔۔۔۔

الرحیق المختوم: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مرحوم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں