سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 216


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 216

چار اہم قلعوں کی فتح:

قلعہ صعب بن معاذ کی فتح :

قلعہ ناعم کے بعد ، قلعہ صعب قوت وحفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاریؓ کی کمان میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا۔ تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اسلم کی شاخ بنوسہم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم لوگ چور ہوچکے ہیں ... اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : یا اللہ ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفروز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو۔ اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔ اس کے بعد لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب بن معاذ کی فتح عطافرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہو۔( ابن ہشام ۲/۳۳۲)

اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنواسلم ہی پیش پیش تھے۔ یہاں بھی قلعے کے سامنے مبارزت اور مار کاٹ ہوئی۔ پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہوگیا۔ اور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبابے(لکڑی کا ایک محفوظ اور بند گاڑی نما ڈبہ بنایا جاتا تھا جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعے کی فصیل کو جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زد سے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہی دبابہ کہلاتا تھا۔ اب ٹینک کو دبابہ کہا جاتا ہے۔) بھی پائے۔

ابن اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ لوگوں نے (فتح حاصل ہوتے ہی) گدھے ذبح کردیے۔ اور چولہوں پر ہنڈیاں چڑھادیں لیکن جب رسول اللہ ﷺ  کو اس کا علم ہوا تو آپ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرمادیا۔

قلعہ زبیر کی فتح :

قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود ، نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر قلعہ زبیر میں جمع ہوگئے۔ یہ ایک محفوظ قلعہ تھا، اور پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا۔ راستہ اتنا پر پیچ اور مشکل تھا کہ یہاں نہ سواروں کی رسائی ہوسکتی تھی نہ پیادوں کی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کے گرد محاصرہ قائم کیا۔ اور تین روز تک محاصرہ کیے پڑے رہے۔ اس کے بعد ایک یہودی نے آکر کہا : اے ابو القاسم ! اگر آپ ﷺ ایک مہینہ تک محاصرہ جاری رکھیں تو بھی انہیں کوئی پروا نہ ہوگی۔ البتہ ان کے پینے کا پانی اور چشمے زمین کے نیچے ہیں۔ یہ رات میں نکلتے ہیں پانی پی لیتے ہیں اور لے لیتے ہیں۔ پھر قلعہ میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اور آپ ﷺ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کا پانی بند کردیں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ اس اطلاع پر آپ نے ان کا پانی بند کردیا۔ اس کے بعد یہود نے باہر آکر زبردست جنگ کی جس میں کئی مسلمان شہید ہو گئے اور تقریباً دس یہودی بھی کام آئے لیکن قلعہ فتح ہوگیا۔

قلعہ ابی کی فتح:

قلعہ زبیر سے شکست کھانے کے بعد یہود ، حصنِ ابی میں قلعہ بند ہوگئے۔ مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کرلیا۔ اب کی بار دو شہ زور اور جانباز یہودی یکے بعد دیگرے دعوت ِ مبارزت دیتے ہوئے میدان میں اترے۔ اور دونوں ہی مسلمان جانبازوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ دوسرے یہودی کے قاتل سُرخ پٹی والے مشہور جانفروش حضرت ابو دجانہ سماک بن خرشہ انصاریؓ تھے۔ وہ دوسرے یہودی کو قتل کرکے نہایت تیزی سے قلعے میں جا گھسے۔ اور ان کے ساتھ ہی اسلامی لشکر بھی قلعے میں جا گھسا۔ قلعے کے اندر کچھ دیر تک تو زوردار جنگ ہوئی لیکن اس کے بعد یہودیوں نے قلعے سے کھسکنا شروع کردیا۔ اور بالآخر سب کے سب بھاگ کر قلعہ نزار میں پہنچ گئے ، جو خیبر کے نصف اوّل (یعنی پہلے منطقے ) کا آخری قلعہ تھا۔

قلعہ نزار کی فتح :

یہ قلعہ علاقے کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور یہود کو تقریباً یقین تھا کہ مسلمان اپنی انتہائی کوشش صرف کردینے کے باوجود اس قلعہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اس قلعے میں انہوں نے عورتوں اور بچوں سمیت قیام کیا جبکہ سابقہ چار قلعوں میں عورتوں اور بچوں کو نہیں رکھا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس قلعے کا سختی سے محاصرہ کیا۔ اور یہود پر سخت دباؤ ڈالا لیکن قلعہ چونکہ ایک بلند اور محفوظ پہاڑی پر واقع تھا اس لیے اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت بن نہیں پڑرہی تھی۔ ادھر یہود قلعے سے باہر نکل کر مسلمانوں سے ٹکرانے کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ البتہ تیر برسا برسا کر اور پتھر پھینک پھینک کر سخت مقابلہ کررہے تھے۔ جب اس قلعہ (نزار) کی فتح مسلمانوں کے لیے زیادہ دشوار محسوس ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے منجنیق کے آلات نصب کرنے کا حکم فرمایا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چند گولے پھینکے بھی جس سے قلعہ کی دیواروں میں شگاف پڑگیا۔ اور مسلمان اندر گھس گئے۔ اس کے بعد قلعے کے اندر سخت جنگ ہوئی۔ اور یہود نے فاش اور بدترین شکست کھائی۔ کیونکہ وہ بقیہ قلعوں کی طرح اس قلعے سے چپکے چپکے کھسک کر نہ نکل سکے بلکہ اس طرح بے محابا بھاگے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جا سکے اور انہیں مسلمانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔

اس مضبوط قلعے کی فتح کے بعد خیبر کا نصف اول یعنی نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہوگیا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے کچھ مزید قلعے بھی تھے۔ لیکن اس قلعے کے فتح ہوتے ہی یہودیوں نے ان باقی ماندہ قلعوں کو بھی خالی کردیا۔ اور شہر خیبر کے دوسرے منطقے یعنی کتیبہ کی طرف بھاگ گئے۔

==================>>  جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں