سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 208


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 208



 شاہِ عمان کے نام خط:

نبی ﷺ نے ایک خط شاہِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان دونوں کے والد کا نام جلندی تھا۔

''محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام!

اس شخص پر سلا م جو ہدایت کی پیروی کرے، میں تم دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لاؤ سلامت رہوگے، کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا رسول ہوں، تاکہ جو زندہ ہے اسے انجام کے خطرہ سے آگاہ کردوں اور کافروں پر قول برحق ہوجائے۔ اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لوگے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا اور اگرتم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہوجائے گی، تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہوگی اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آجائے گی۔

اس خط کو لے جانے کے لیے ایلچی کی حیثیت سے حضرت عمرو بن العاصؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں روانہ ہوکر عمان پہنچا۔ اور عبد سے ملاقات کی۔ دونوں بھائیوں میں یہ زیادہ دور اندیش اور نرم خوتھا۔

میں نے کہا: میں تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس رسول اللہ ﷺ کا ایلچی بن کر آیا ہوں، اس نے کہا: میرا بھائی عمر اور بادشاہت دونوں میں مجھ سے بڑا اور مجھ پر مقدم ہے، اس لیے میں تم کو اس کے پاس پہنچا دیتا ہوں کہ وہ تمہارا خط پڑھ لے۔

اس کے بعد اس نے کہا: اچھا! تم دعوت کس بات کی دیتے ہو؟
میں نے کہا: ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جو تنہا ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے چھوڑ دو اور یہ گواہی دوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

عبد نے کہا: اے عمرو! تم اپنی قوم کے سردار کے صاحبزادے ہو، بتاؤ! تمہارے والد نے کیا کیا؟ کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرز عمل لائقِ اتباع ہوگا۔
میں نے کہا: وہ تو محمد ﷺ پر ایمان لائے بغیر وفات پاگئے، لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش! انہوں نے اسلام قبول کیا ہوتا اور آپ کی تصدیق کی ہوتی، میں خود بھی انہیں کی رائے پر تھا، لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی۔

عبد نے کہا: تم نے کب ان کی پیروی کی؟
میں نے کہا: ابھی جلد ہی۔
اس نے دریافت کیا: تم کس جگہ اسلام لائے؟
میں نے کہا: نجاشی کے پاس اور بتلایا کہ نجاشی بھی مسلمان ہوچکا ہے۔
عبد نے کہا: اس کی قوم نے اس کی بادشاہت کا کیا کیا؟
میں نے کہا: اسے برقرار رکھا اور اس کی پیروی کی۔
اس نے کہا: اسقفوں اور راہبوں نے بھی اس کی پیروی کی؟
میں نے کہا: ہاں!
عبد نے کہا: اے عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ آدمی کی کوئی بھی خصلت جھوٹ سے زیادہ رسوا کن نہیں۔
میں نے کہا: میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہم اسے حلال سمجھتے ہیں۔
عبد نے کہا: میں سمجھتا ہوں، ہرقل کو نجاشی کے اسلام لانے کا علم نہیں۔
میں نے کہا: کیوں نہیں۔
عبد نے کہا: تمہیں یہ بات کیسے معلوم ؟
میں نے کہا: نجاشی ہرقل کو خراج ادا کیا کرتا تھا، لیکن جب اس نے اسلام قبول کیا اور محمد ﷺ کی تصدیق کی تو بولا: اللہ کی قسم! اب اگر وہ مجھ سے ایک درہم بھی مانگے تو میں نہ دوں گا اور جب اس کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس کے بھائی یناق نے کہا: کیا تم اپنے غلام کو چھوڑ دوگے کہ وہ تمہیں خراج نہ دے اور تمہارے بجائے ایک دوسرے شخص کا نیا دین اختیار کرلے؟

ہرقل نے کہا: یہ ایک آدمی ہے جس نے ایک دین کو پسند کیا اور اسے اپنے لیے اختیار کرلیا، اب میں اس کا کیا کرسکتا ہوں؟ اللہ کی قسم! اگر مجھے اپنی بادشاہت کی حرص نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو اس نے کیا ہے۔
عبد نے کہا : عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟
میں نے کہا: واللہ! میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد نے کہا: اچھا مجھے بتاؤ! وہ کس بات کا حکم دیتے ہیں اور کس چیز سے منع کرتے ہیں ؟
میں نے کہا: اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں، نیکی و صِلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور ظلم و زیادتی، زنا کاری، شراب نوشی اور پتھر، بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔

عبد نے کہا: یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں، اگر میرا بھائی بھی اس بات پر میری متابعت کرتا تو ہم لوگ سوار ہوکر (چل پڑتے ) یہاں تک کہ محمد ﷺ پر ایمان لاتے اور ان کی تصدیق کرتے، لیکن میرابھائی اپنی بادشاہت کا اس سے کہیں زیادہ حریص ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی کا تابع فرمان بن جائے۔

میں نے کہا: اگر وہ اسلام قبول کرلے تو رسول اللہ ﷺ اس کی قوم پر اس کی بادشاہت برقرار رکھیں گے، البتہ ان کے مالداروں سے صدقہ لے کر فقیروں پر تقسیم کردیں۔
عبد نے کہا: یہ بڑی اچھی بات ہے، اچھا بتاؤ صدقہ کیا ہے؟
جواب میں میں نے مختلف اموال کے اندر رسول اللہ ﷺ کے مقرر کیے ہوئے صدقات کی تفصیل بتائی، جب اونٹ کی باری آئی تو وہ بولا: اے عمرو! ہمارے ان مویشیوں میں سے بھی صدقہ لیا جائے گا، جو خود ہی درخت پر چر لیتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں!
عبد نے کہا: واللہ !میں نہیں سمجھتا تھا کہ میری قوم اپنے ملک کی وسعت اور تعداد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس کی ڈیوڑھی میں چند دن ٹھہرارہا، وہ اپنے بھائی کے پاس جاکر میری ساری باتیں بتاتا رہتا تھا، پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا اور میں اندر داخل ہوا، چوبداروں نے میرے بازو پکڑ لیے، اس نے کہا: چھوڑ دو اور مجھے چھوڑ دیا گیا، میں نے بیٹھنا چاہا تو چوبداروں نے مجھے بیٹھنے نہ دیا، میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: اپنی بات کہو! میں نے سر بمہر خط اس کے حوالے کردیا۔ اس نے مہر توڑ کر خط پڑھا اور پورا خط پڑھ چکا تو اپنے بھائی کے حوالہ کردیا، بھائی نے بھی اسی طرح پڑھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی اس سے زیادہ نرم دل ہے۔

بادشاہ نے پوچھا: مجھے بتاؤ قریش نے کیا روش اختیار کی ہے؟
میں نے کہا: سب ان کے اطاعت گزار ہوگئے ہیں، کسی نے دین کی رغبت کی بنا پر اور کسی نے تلوار سے مقہور ہوکر۔
بادشاہ نے پوچھا: ان کے ساتھ کون لوگ ہیں؟
میں نے کہا: سارے لوگ ہیں، انہوں نے اسلام کو برضا و رغبت قبول کرلیا ہے۔ اور اسے تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے، انہیں اللہ کی ہدایت اور اپنی عقل کی رہنمائی سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ وہ گمراہ تھے، اب اس علاقہ میں میں نہیں جانتا کہ تمہارے سوا کوئی اور باقی رہ گیا ہے اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا اور محمد ﷺ کی پیروی نہ کی تو تمہیں سوار روند ڈالیں گے اور تمہاری ہریالی کا صفایا کردیں گے، اس لیے اسلام قبول کرلو! سلامت رہوگے اور رسول اللہ ﷺ تم کو تمہاری قوم کا حکمراں بنادیں گے، تم پر نہ سوار داخل ہوں گے نہ پیادے۔

بادشاہ نے کہا: مجھے آج چھوڑ دو اور کل پھر آؤ، اس کے بعد میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا۔
اس نے کہا: عمرو! مجھے امید ہے کہ اگر بادشاہت کی حرص غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔

دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گیا، لیکن اس نے اجازت دینے سے انکار کردیا، اس لیے میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا اور بتلایا کہ بادشاہ تک میری رسائی نہ ہوسکی، بھائی نے مجھے اس کے یہاں پہنچا دیا، اس نے کہا: میں نے تمہاری دعوت پر غور کیا، اگر میں بادشاہت ایک ایسے آدمی کے حوالے کردوں جس کے شہسوار یہاں پہنچے بھی نہیں تو میں عرب میں سب سے کمزور سمجھا جاؤں گا اور اگر شہسوار یہاں پہنچ آئے تو ایسا رن پڑے گا کہ انہیں کبھی اس سے سابقہ نہ پڑا ہوگا۔
میں نے کہا: اچھا تو میں کل واپس جارہا ہوں۔

جب اسے میری واپسی کا یقین ہوگیا تو اس نے بھائی سے خلوت میں بات کی اور بو لا: یہ پیغمبر جن پر غالب آچکا ہے، ان کے مقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں اور اس نے جس کسی کے پاس پیغام بھیجا ہے، اس نے دعوت قبول کرلی ہے، لہٰذا دوسرے دن صبح ہی مجھے بلوایا گیا اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کرلیا اور نبی ﷺ کی تصدیق کی اور صدقہ وصول کرنے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا۔ اور جس کسی نے میری مخالفت کی اس کے خلاف میرے مدد گار ثابت ہوئے۔( زاد المعاد ۳/۶۲، ۶۳)

اس واقعے کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ بادشاہوں کی بہ نسبت ان دونوں کے پاس خط کی روانگی خاصی تاخیر سے عمل میں آئی تھی، غالباً یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔

ان خطوط کے ذریعے نبی ﷺ نے اپنی دعوت روئے زمین کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی اور اس کے جواب میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر کیا، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوگئی اور ان کے نزدیک آپ ﷺ کا دین اور آپ کا نام ایک جانی پہچانی چیز بن گیا۔

================>> جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں