سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 14


*سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 14*


*جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں: (حصہ دوم)*

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب " لائف آف محمد" (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم) میں لکھتے ہیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لےکر روم و ایران و شام اور ہندوستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات لے کر لوٹتے، شام و عراق سے لڑکیاں درآمد کی جاتیں جنہیں عیش پرستی کے لیے استعمال کیا جاتا، شھوانی خواہشات کے اس چٹخارے نے عربوں کو بلا کا اوباش اور نفس پرست بنا دیا تھا اور ان کے ہاں بدکاری اتنی رچ بس گئی تھی کہ اگر کوئی صالح شخص ان بدکاریوں اور بری عادات سے اجتناب برتتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور اسے کمینہ، کنجوس اور غیر ملنسار قرار دے دیا جاتا۔

عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا، عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی، مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سوائے فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا، ایک ہی وقت میں کئی کئی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جاتا، دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا، دس دس لوگ ایک ہی عورت سے تعلقات قائم کرلیتے، جگہ جگہ رنڈیوں اور طوائفوں کے گھر زنا اور بدکاری کے اڈے تھے، شراب نوشی اور جواء عام تھا۔

ان کی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ ان کی بیٹیاں تک نیم عریاں لباس میں قبائلی مخلوط مجالس میں شریک ہوتیں جہاں ان کے جسمانی اعضاء پر نہایت فحش شعر پڑھے جاتے، دنیا کی شاید ہی کوئی برائی ہو جو عربوں میں موجود نہ تھی، لہو و لعب، فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ، زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ہر گھر ایک شراب خانہ تھا۔

عرب نہایت شقی القلب اور سنگ دل تھے، جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی، زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے، اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا، ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا، دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا، ان کے کاسۂ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی، مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں۔

درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایسی وحشی و جاہل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور ان کو اخلاقی طور پر فرشتوں کے جیسا پاکیزہ بنا دیا، تاہم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے سلیم فطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے۔

دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں۔ شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی، ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی، کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا، نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں۔

سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا، مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لیے ہوتا تو اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا..

عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ہونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا۔

عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے، عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کردیا جاتا تھا، جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کردیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے۔

شاید عرب قوم کی یہ امتیازی صفات ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو اسلام کی داعی قوم کے طور پر فضیلت بخشی، بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ہوئی تھی، مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ہو بھی گئیں، مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ہے نہ ہی امانت دار اور نہ ہی حریت و آزادی کا متوالا، یہ وہ صفات ہیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا۔

اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں