سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 28


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 28
==============================

حلیمہؓ کی پرورش میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات:

پچھلی قسط میں ہم نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے مکہ آنے اور "ننھے حضور" کو اپنے ساتھ دودھ پلانے کی خاطر گاؤں لے جانے کے واقعات بیان کیے، اب آگے کے حالات کا ذکر کیا جائے گا۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کل چھ افراد رہا کرتے تھے، شوہر حارث، شیر خوار عبداللہ، بیٹیاں انیسہ، حذیفہ اور جدامہ (رضی اللہ عنہا) ( ان ہی کا لقب شیما تھا) عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کی قسمت کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا شرف حاصل ہوا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا بڑے ہوئے اور پاؤں پاؤں چلنے لگے تو شیما (رضی اللہ عنہا) ہی زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھیلا کرتیں، اس کھیل کے دوران ایک مرتبہ شیما (رضی اللہ عنہا) نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تنگ کیا تو غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کندھے پر اس زور سے کاٹا کہ دانتوں کے نشان بیٹھ گئے، یہ نشان ان کے لئے اُس وقت باعث رحمت بن گئے جب کہ غزوۂ حنین کے بعد شیما مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضاعی بہن ہوں۔

جب مسلمانوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بچپن کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے اپنے کندھے پر دانتوں کے نشان دکھائے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا واقعہ یاد آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بڑے احترام سے اپنی چادر بچھا کر بٹھایا اور فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بہن کی طرح رہ سکتی ہو، لیکن انہوں نے عرض کیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جانا چاہتی ہیں، انہوں نے اسلام قبول کرلیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں جو عطایا دئیے، ان میں تین غلام، باندیاں، کچھ اونٹ اور بکریاں شامل تھیں۔

ان چاروں میں سے جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ اور شیما رضی اللہ عنہا کا اسلام لانا تو ثابت ہے، لیکن باقی دو کا حال معلوم نہیں، جبکہ جناب حارث رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ آئے تو تب اسلام قبول کرلیا تھا۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو غیر معمولی واقعات مکہ سے واپسی پر شروع ہوئے وہ ان کے گھر پہنچنے پر بھی جاری رہے، مریل اور بوڑھی اونٹنی کے تھنوں میں دودھ بھر آیا، حالانکہ اس سے قبل بڑی مشکل سے گزارے کے لئے دودھ آتا تھا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سبب خیر و برکت سے ہمارے گھرانے کو نوازتا رہا، خود حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے دودھ کم اترتا تھا اور خود عبداللہ کے لیے بھی مشکل سے پورا پڑتا تھا، لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارکہ کی برکتیں ہی تھیں کہ آپ کے آتے ہی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی چھاتیوں میں اتنا دودھ اتر آیا کہ جس کا انہوں نے اس سے پہلے سوچا بھی نہ تھا، لیکن اس زمانے میں بھی "ننھے حضور" کی منصف مزاجی اور عدل پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی ایسا نہ کیا کہ ایک پستان کا دودھ پی کر دوسرے سے بھی پی لیں، بلکہ دوسری پستان کا دودھ اپنے دودھ شریک بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑ دیتے، اس کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب تک آپ کو دودھ پلاتی رہیں ایسا کبھی نہ ہوا کہ ان کا کوئی بستر یا کوئی دوسرا کپڑا آپ کے بول و براز سے خراب ہوا ہو۔

آپ کے دم سے ظہور پزیر برکتیں صرف حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تک محدود نہ تھیں، بلکہ اس کا دائرہ ان کے گھر سے وسیع ہوکر اڑوس پڑوس کے گھروں تک بھی پہنچنے لگا، قحط اور خشک سالی کی بدولت بنو سعد کے گھرانے کی تمام زمینیں بنجر ہو گئی تھیں اور جانوروں کے تھن دودھ سے محروم ہو گئے تھے، بستی والے چرواہوں سے کہا کرتے کہ تم بھی اپنی بکریاں وہاں لے جاؤ جہاں حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) کے جانور چرتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عکاظ کے میلہ میں لے گئیں،  وہاں ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی تو پکار پکار کر کہنے لگا کہ اے عکاظ والو! اس بچہ کو جان سے مار ڈالو ورنہ یہ بڑا ہو کر تم سب کو مٹا دے گا، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر فوراً وہاں سے چلی گئیں۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں