سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 22


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 22


آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہرطرف پھیل گئیں: 

یہاں ان چند محیر العقول واقعات (جن کی اسنادی حیثیت کمزور ہے) کا ذکر ضروری ہے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آئے، اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ہے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ درد زہ میں مبتلا تھیں۔ 

آپ فرماتی ہیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا، اس کے ساتھ ہی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی، اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وہاں موجود تھیں اور انہوں نے وہاں سوائے نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باہر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ہوں۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں، ان کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ہاتھ میں آئے تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ہوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے درو دیوار چمک اٹھے۔

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا، جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا: "کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ہوا ہے۔؟"

وہ بولے: "نہیں تو" دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت آمنہ بنت وہب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے، اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وہاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ۔

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مبارک چاند سے زیادہ روشن ہے، یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاہر ہورہے تھے۔ دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ہوش ہوکر گرگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا: "ارے تجھے کیا ہوا ؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا: "آج ہم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ہوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جائے گی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں