سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 35


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 35 

جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول:


مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہو و لعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا، باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بےحیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بداعمال عرب معاشرہ میں نہایت ہی پسند کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا، اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آئے۔

دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوئے ہوں، خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے، اس دوران نہ صرف خود ایسی بداعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے دین ابراھیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل بعثت ہر قسم کی بےحیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔

"جنگ فجار" میں شرکت: 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بیس سال تھی، جب قبیلہ قریش اور قبیلہ "قیس عیلان" کے درمیان ایک بہت ہی زبردست جنگ ہوئی، یہ جنگ "حرب الفجار" کے نام سے مشہور ہے۔ "بنی کنانہ" بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے، یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا، فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا، اس لیے اس جنگ کو "حرب الفجار" کا نام دیا گیا۔

قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں، بنو ھاشم کے علمبردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب زبیر بن عبدالمطلب تھے، جبکہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے والد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دادا "حرب بن امیہ" کے ہاتھ میں تھی جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے۔

ابن ھشام کے مطابق بازار عکاظ میں ہونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا، دونوں ہی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا، بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی۔

چونکہ اس تنازعہ میں قریش خود کو برسرحق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوئے،  لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران جنگ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ہوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا، دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ہی فریق مشرک تھے، اس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بےمقصد قتل و غارتگری سے محفوظ رکھا، کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو، جبکہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لیے لڑی گئی۔

جنگ شروع ہوئی تو اول اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رہا، لیکن دوپہر کے بعد قریش بتدریج غالب ہوتے گئے اور بلآخر قریش ہی فتح یاب ہوئے، تاہم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں، جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی اور یوں قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ تھم گیا۔

معاھدہ "حلف الفضول" میں شرکت: 

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا، جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے، حرب الفجار کے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بےمعنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ہوئی اور یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے " فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث" نے ایک معاہدہ مرتب کیا تھا، جو انہی کے نام پر "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جائے، (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا، اس لئے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں)۔ 

جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور خاندان بنو ھاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی، چنانچہ خاندان بنو ھاشم، بنو زھرہ اور بنو تیم "عبداللہ بن جدعان تیمی" کے گھر میں جمع ہوئے، وہ سن وشرف میں ممتاز تھا، وہاں یہ معاہدہ طے پایا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ "اس معاہدہ کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا، اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ہرگز پسند نہ کرتا اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدہ کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔"

اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور "عاص بن وائل" نے اس سے سامان خریدا، لیکن اس کا حق روک لیا، اس نے حلیف قبائل عبد الدار، مخزوم،  جمح، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی، لیکن کسی نے توجہ نہ دی، اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے، جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی،  اس پر جناب زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے؟  ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔

"حلف الفضول" کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا، جسے قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہوا، اس لیے اس معاہدہ کو زمانہ جاہلیت کے بہترین معاہدہ کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ہے۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں