سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 301



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 301

حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی کیفیت:

وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا : کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوئی، بلکہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ جس طرح موسیٰ بن عمران علیہ السلام تشریف لے گئے تھے۔ اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے حالانکہ واپسی سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ( ابن ہشام ۲/۶۵۵)

ادھر حضرت ابو بکرؓ سنح میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔ اور اُتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے، اور رسول اللہ ﷺ کا قصد فرمایا، آپ ﷺ کا جسدِ مُبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے رُخ انور سے چادر ہٹائی اور اسے چوما اور روئے، پھر فرمایا : میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، اللہ آپ ﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا۔ جو موت آپ ﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ ﷺ کو آچکی۔

اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ باہر تشریف لائے۔ اس وقت بھی حضرت عمرؓ لوگوں سے بات کررہے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان سے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:

أما بعد : من کان منکم یعبد محمداًﷺ فإن محمداً قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت قال اللّٰہ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِ‌ينَ (۳: ۱۴۴)

''اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو (وہ جان لے ) کہ محمد ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ کبھی نہیں مرے گا، اللہ کا ارشاد ہے۔ محمد(ﷺ ) نہیں ہیں مگر رسول ہی۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمدﷺ) مرجائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔''

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو اب تک فرطِ غم سے حیران وششدر تھے، انہیں حضرت ابو بکرؓ کا یہ خطا ب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہﷺ واقعی رحلت فرما چکے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ ! ایسا لگتا تھا گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی۔ اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔

حضرت سعیدؓ بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا : واللہ ! میں نے جوں ہی ابو بکرؓ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا خاک آلود ہوکر رہ گیا۔ (یا میری پیٹھ ٹوٹ کر رہ گئی ) حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابو بکرؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر میں زمین کی طرف لڑھک گیا۔ کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبی ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔
( صحیح بخاری ۲/۶۴۰، ۶۴۱)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں