سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 302



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 302

جانشینی کا اختلاف اور تجہیز وتکفین:

حضور اکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار جمع ہوئے اور حضورﷺ کی جانشینی اور خلافت پر بحث شروع ہوگئی، حضرت سعد ؓ بن عبادہ صدر نشین تھے، اُدھر حضرت فاطمہؓ کے گھر میں حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ آپس میں مشورہ کر رہے تھے، مہاجرین کی بڑی تعداد حضرت ابو بکرؓ کے پاس جمع تھی، جن میں گروہ انصار سے بنو عبدالاشہل کو لے کر حضرت اسیدؓ بن حضیر شامل ہو گئے، اطلاع ملی کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع انصار حضرت سعد ؓ بن عبادہ کی بیعت پر مائل ہیں کیونکہ غزوات میں انصار کا علم اکثر ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔

یہ اطلاع جب حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ہوئی تو اس خوف سے کہ کچھ نے اپنی مرضی سے کوئی خلیفہ منتخب کرلیا اور باقیوں نے اپنا تو ملت میں افتراق نہ پیدا ہو جائے، دونوں حضرات ابو عبیدہؓ بن الجراح کو لے کر سقیفہ بنو ساعدہ روانہ ہوئے، راستہ میں دو انصاری حضرت عدیم ؓ بن ساعدہ اور حضرت معن ؓ بن عدی ملے، انھوں نے بتایا کہ انصار ایک معاملہ میں متفق ہو چکے ہیں، تم ان کے پاس نہ جاؤ بلکہ اپنے معاملات خود طے کر لو، حضرت ابو بکرؓ نے کہا نہیں ہم ان سے ضرور ملیں گے، حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار تھے اور چادر اوڑھے سب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، ان کے خطیب نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ ہم اللہ کے انصار اور اسلام کا لشکر ہیں، مہاجرین ایک جماعت بن کر ہمارے پاس آئے، اب ان کا ارادہ ہماری جڑیں کاٹ کر امارت غصب کرنے کا ہے۔

حضرت عمرؓ اس کا جواب دینے کے لئے اٹھنے والے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ نے روک دیا، خود کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ء وصلوٰۃ کے بعد پہلے مہاجرین کے فضائل اور اسلام کے لئے ان کی غیر معمولی قربانیاں اور حضور اکرم ﷺ سے قرابت کا ذکر کیا، اس کے بعد فرمایا، اے انصار ! تم اپنے متعلق جو کچھ کہتے ہو بے شک تم ان فضائل کے حامل ہو، آنحضرت ﷺ سے تمہارا تعلق بھی بہت گہرا ہے، لیکن عرب اس معاملہ میں سوائے قریش کے کسی اور کی اطاعت قبول نہیں کریں گے، انصار نے کہا کہ اچھا ہم میں سے ایک امیر ہو اور تم میں سے ایک، حضرت ابو بکرؓ نے کہا، نہیں بلکہ ہم میں سے امیر ہوں اور تم میں سے وزیر ہو، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو، شور و غل بڑھنے لگا۔

حضرت خبابؓ بن منذر نے اعتراض کیا تو حضرت عمرؓ نے بڑھ کر حضرت ابو بکرؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہم میں آپ سب سے بہترین ہیں، ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں، حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کی تائید کی اور انصار میں سے حضرت بشیرؓ بن سعد کو سب سے پہلے بیعت کا شرف حاصل ہوا، پھر تمام مہاجرین و انصار نے بیعت کی، انتشار و تفریق کا یہ نازک مرحلہ حضرت ابو بکرؓ کے حسنِ تدبر سے سلجھ گیا، اس سے فراغت پا کر لوگ حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوگئے۔

اپنی تجہیز و تکفین کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ایک ماہ قبل ہی واضح احکامات دے دیے تھے، منگل کے روز آپﷺ کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ، حضرت عباس کے دو صاحبزادگان فضل اور قثمؓ، رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران، حضرت اسامہؓ بن زیدؓ اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم ۔ حضرت عباس، فضل اور قثم آپﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے۔ حضرت اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہما پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علیؓ غسل دے رہے تھے اور حضرت اوسؓ نے آپﷺ کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا۔
( ابن ماجہ ۱/۵۲۱)

آپ ﷺ کو پانی اور بیر کی پتی سے تین غسل دیا گیا۔ اور قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے غرس نامی کنویں سے غسل دیا گیا۔ آپ ﷺ اس کا پانی پیا کرتے تھے۔( تفصیل طبقات ابن سعد ۲/۲۷۷،۲۸۱ میں ملاحظہ ہو۔)

اس کے بعد آپ ﷺ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنا یا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی۔ بس آپ ﷺ کو چادروں ہی میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ ( صحیح بخاری ۱/۱۶۹ جنائز باب الثیاب البیض للکفن ، فتح الباری ۳/۱۶۲،۱۶۷ ،۱۶۸حدیث نمبر ۱۲۶۴، ۱۲۷۱،۱۲۷۲،۱۲۷۳، ۱۲۷۳، ۱۳۸۷، صحیح مسلم : جنائز ، باب کفن المیت ۱/۳۰۶ حدیث نمبر ۴۵)

آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی رائیں مختلف تھیں، لیکن حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نبی بھی نہیں اٹھایا گیا مگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اٹھایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ نے آپﷺ کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ اور اسی کے نیچے قبر کھودی۔ مدینہ میں قبر کھود نے میں دو افراد ماہر تھے، ایک حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح جو مکی طرز پر شق (سیدھی قبر ) کھودتے تھے، دوسرے حضرت ابو طلحہؓ زید بن سہل انصاری جو اہل مدینہ کی طرز کی قبر (بغلی قبر ) کھود تے تھے، مشورہ میں طے ہوا کہ ان میں سے جو پہلے آئے وہ یہ کام انجام دے، حضرت عباسؓ نے دو آدمی روانہ کئے، حضرت ابو طلحہؓ پہلے آئے اور انہیں لحد تیار کرنے کا شرف حاصل ہوا، قبر میں (۹) کچی اینٹیں بچھائی گئیں، یہ بھی لکھا ہے کہ کچی اینٹوں سے لحد کو بند کیا گیا، قبر لحد والی (بغلی) کھودی گئی تھی۔

اس کے بعد باری باری دس دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجرہ شریف میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ ﷺ کے خانوادہ ( بنو ہاشم ) نے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے، اور ان کے بعد بچوں نے۔ ( مؤطا امام مالک ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی دفن المیت ۱/۲۳۱ طبقات ابن سعد ۲/۲۸۸ - ۲۹۲)

نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گزر گیا اور چہار شنبہ (بدھ) کی رات آگئی۔ رات میں آپ ﷺ کے جسدِ پاک کو سپردِ خاک کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کی تدفین کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں (اور ایک روایت کے مطابق، آخر رات میں) پھاؤڑوں کی آواز سنی۔ ( مسند احمد ۶/۶۲، ۲۷۴)

(واقعہ وفات کی تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ اور اس کے بعد کے چند ابواب مع فتح الباری، نیز صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح، باب وفاۃ النبیﷺ ، ابن ہشام ۲/۶۴۹ تا ۶۶۵۔ تلقیح فہوم اہل الاثر ص ۳۸، ۳۹۔ رحمۃ للعالمین ۱/۲۷۷ تا ۲۸۶۔ اوقات کی تعیین بالعموم رحمۃ للعالمین سے لی گئی ہے)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں