سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 218


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 218

اموالِ غنیمت کی تقسیم:

رسول اللہ ﷺ نے یہود کو خیبر سے جلاوطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا، مگر یہود نے کہا: اے محمد! ہمیں اسی سرزمین میں رہنے دیجیے! ہم اس کی دیکھ ریکھ کریں گے، کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں، ادھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس اتنے غلام نہ تھے جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کا کام کرسکتے اور نہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے، اس لیے آپ نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کردی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا اور جب تک رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہوگی اس پر برقرار رکھیں گے (اور جب چاہیں گے جلاوطن کردیں گے )، اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے۔

خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے 36 حصوں میں بانٹ دیا گیا، ہر حصہ ایک سو حصوں کا جامع تھا، اس طرح کل تین ہزار چھ سو (3600 ) حصے ہوئے، اس میں سے نصف، یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے تھے، عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ ﷺ کا بھی صرف ایک ہی حصہ تھا، باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیے الگ کر لیا تھا۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے ایک عطیہ تھا، جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی، جو خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے، چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے اور گھوڑے کا حصہ ڈبل، یعنی دو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے، اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دوسو شہ سواروں کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے۔ اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک حصے کے حساب سے بارہ سو حصے ملے۔( زاد المعاد ۲/۱۳۷، ۱۳۸ ، مع توضیح)

خیبر کے اموال غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابن عمرؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: '' ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔'' نیز جب رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کردیے جو انصار نے امداد کے طور پر انہیں دے رکھے تھے، کیونکہ اب ان کے لیے خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہوچکے تھے۔( زاد المعاد ۲/۱۴۸ صحیح مسلم ۲/۹۶)

==================>>  جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں