سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 233


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 233

غزوہ کی تیاری اور اخفاء کی کوشش:

طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عہد شکنی کی خبر آنے سے تین روز پہلے ہی حضرت عائشہ ؓ کو حکم دے دیا تھا کہ آپ کا سازوسامان تیار کر دیں، لیکن کسی کو پتہ نہ چلے، اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے پاس حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے تو پوچھا: بیٹی! یہ کیسی تیاری ہے؟ انہوں نے کہا: واللہ! مجھے نہیں معلوم۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا: یہ بنو اَصْفر یعنی رومیوں سے جنگ کا وقت نہیں، پھر رسول اللہ ﷺ کا ارادہ کدھر کا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے کہا: واللہ مجھے علم نہیں۔

تیسرے روز علی الصباح عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کو لے کر پہنچ گیا اور یا رب إني ناشد محمدا ... الخ والے اشعار کہے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ عہد شکنی کی گئی ہے، اس کے بعد بدیل آیا، پھر ابو سفیان آیا اور لوگوں کو حالات کا ٹھیک ٹھیک علم ہو گیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تیاری کا حکم دیتے ہوئے بتلایا کہ مکہ چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! جاسوسوں اور خبروں کو قریش تک پہنچنے سے روک اور پکڑلے، تاکہ ہم ان کے علاقے میں ان کے سر پر ایک دم جا پہنچیں۔

پھر کمال اخفاء اور راز داری کی غرض سے رسول اللہ ﷺ نے شروع ماہ رمضان ۸ ھ میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا، یہ مقام ذی خشب اور ذی المروہ کے درمیان مدینہ سے ۳۶ عربی میل کے فاصلے پر واقع ہے، مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والا سمجھے کہ آپ اسی علاقے کا رخ کریں گے اور یہی خبریں اِدھر اُدھر پھیلیں، لیکن یہ سریہ جب اپنے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اسے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، چنانچہ یہ بھی آپ سے جا ملا۔

یہی سریہ ہے جس کی ملاقات عامر بن اضبط سے ہوئی تو عامر نے اسلامی دستور کے مطابق سلام کیا، لیکن محلم بن جثامہ نے کسی سابقہ رنجش کے سبب اسے قتل کردیا اور اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کرلیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ...الآیہ

یعنی ''جو تم سے سلام کرے، اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔''

اس کے بعد صحابہ کرام محلم کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے کہ آپ اس کے لیے دعاء مغفرت کردیں، لیکن جب محلم آپ کے سامنے حاضر ہوا تو آپ نے تین بار فرمایا: اے اللہ! محلم کو نہ بخش، اس کے بعد محلم اپنے کپڑے کے دامن سے آنسو پونچھتا ہوا اٹھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ بعد میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مغفرت کی دعا کردی تھی۔ دیکھئے : زاد المعاد ۲/۱۵۰ ، ابن ہشام ۲/۶۲۶،۶۲۷،۶۲۸۔

ادھر حاطب ابی بلتعہؓ نے قریش کو ایک رقعہ لکھ کر یہ اطلاع دے بھیجی کہ رسول اللہ ﷺ حملہ کرنے والے ہیں، انہوں نے یہ رقعہ ایک عورت کو دیا تھا اور اسے قریش تک پہنچانے پر معاوضہ رکھا تھا، عورت سر کی چوٹی میں رقعہ چھپا کر روانہ ہوئی، لیکن رسول اللہ ﷺ کو آسمان سے حاطب کی اس حرکت کی خبر دے دی گئی، چنانچہ آپ نے حضرت علی، حضرت مقداد، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد غنوی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ روضۂ خاخ پہنچو، وہاں ایک ہودج نشین عورت ملے گی، جس کے پاس قریش کے نام ایک رقعہ ہوگا، یہ حضرات گھوڑوں پر سوار تیزی سے روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو عورت موجود تھی، اس سے کہا کہ وہ نیچے اُترے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی خط ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں، انہوں نے اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا، اس پر حضرت علیؓ نے اس سے کہا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کہا ہے، نہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں، تم یا تو خط نکالو، یا ہم تمہیں ننگا کردیں گے، جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو بولی: اچھا منہ پھیرو۔ انہوں نے منہ پھیرا تو اس نے چوٹی کھول کر خط نکالا اور ان کے حوالے کردیا، یہ لوگ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، دیکھا تو اس میں تحریر تھا:

''حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے قریش کی جانب۔ پھر قریش کو رسول اللہ ﷺ کی روانگی کی خبر دی تھی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا کر پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے محمد ﷺ! میرے خلاف جلدی نہ فرمائیں۔ اللہ کی قسم! اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان ہے، میں نہ تو مرتد ہوا ہوں اور نہ مجھ میں تبدیلی آئی ہے، بات صرف اتنی ہے کہ میں خود قریش کا آدمی نہیں، البتہ ان میں چپکا ہوا تھا اور میرے اہل وعیال اور بال بچے وہیں ہیں، لیکن قریش سے میری کوئی قرابت نہیں کہ وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کریں، اس کے بر خلاف دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں جو ان کی حفاظت کریں گے، اس لیے جب مجھے یہ چیز حاصل نہ تھی تو میں نے چاہا کہ ان پر ایک احسان کردوں جس کے عوض وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔

اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے چھوڑیے میں اس کی گردن مار دوں، کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے اور یہ منافق ہوگیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو! یہ جنگِ بدر میں حاضر ہوچکا ہے اور عمر! تمہیں کیا پتہ؟ ہوسکتا ہے اللہ نے اہلِ بدر پر نمودار ہوکر کہا ہو تم لوگ جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ۱/۴۲۲ ، ۲/۶۱۲ ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد کے ناموں کا اضافہ صحیح بخاری کی بعض دوسری روایات میں ہے۔)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں