سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 229


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 229

جنگ کا آغاز اور سپہ سالاروں کی یکے بعد دیگرے شہادت:

اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت تلخ لڑائی شروع ہوگئی، تین ہزار کی نفری دولاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کررہی تھی، عجیب وغریب معرکہ تھا، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، لیکن جب ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔

سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے چہیتے حضرت زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے علاوہ کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی، وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے، یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہوکر زمین پر آرہے۔

اس کے بعد حضرت جعفرؓ کی باری تھی، انہوں نے لپک کر جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کردی، جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ وسیا ہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے، کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے، یہاں تک ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا، اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا، یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا، پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہوگئے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دوٹکڑے ہوگئے، اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دو بازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں، اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار۔ معنیٰ اڑنے والا اور ذُو الجناحین۔ معنی دو بازوؤں والا)

امام بخاری رحمہ اللہ نے نافع کے واسطے سے ابن عمرؓ کا یہ بیان روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ موتہ کے روز حضرت جعفر کے پاس جبکہ وہ شہید ہوچکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کیے، ان میں سے کوئی بھی زخم پیچھے نہیں لگا تھا۔

ایک دوسری روایت میں ابن عمرؓ کا یہ بیان اس طرح مروی ہے کہ میں بھی اس غزوے میں مسلمانوں کے ساتھ تھا، ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔ (صحیح بخاری ، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)

نافع سے عمر ہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے۔ فتح الباری ۷/۵۱۲۔ بظاہر دونوں حدیث میں تعداد کا اختلاف ہے، تطبیق یہ دی گئی ہے کہ تیروں کے زخم شامل کرکے تعداد بڑھ جاتی ہے۔

اس طرح کی شجاعت وبسالت سے بھر پور جنگ کے بعدجب حضرت جعفرؓ بھی شہید کردیے گئے تو اب حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے لگے، لیکن انہیں کسی قدر ہچکچاہٹ ہوئی، حتیٰ کہ تھوڑا سا گریز بھی کیا، لیکن اس کے بعد کہنے لگے :

أقسمت یــا نفــس لتنزلنــہ کارہــــــۃ أو لتطـاوعـنـــہ
إن أجلب الناس وشدوا الرنہ ما لی أراک تکـرہین الجنـــۃ

''اے نفس! قسم ہے کہ تو ضرور مدِّ مقابل اُتر، خواہ ناگواری کے ساتھ، خواہ خوشی خوشی، اگر لوگوں نے جنگ برپا کر رکھی ہے اور نیزے تان رکھے ہیں تو میں تجھے کیوں جنت سے گریزاں دیکھ رہا ہوں۔''

اس کے بعد وہ مد مقابل میں اترے، اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہوئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو! کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے، انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی، پھر پھینک کر تلوار تھام لی اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔

جھنڈا، اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں :

اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا: مسلمانو! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو، صحابہ نے کہا: آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا: میں یہ کام نہیـں کرسکوں گا۔

اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی، چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں، پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا اور ایک دوسری روایت میں ان کا بیان اس طرح مروی ہے کہ میرے ہاتھ میں جنگ موتہ کے روز نو تلواریں ٹوٹ گئیں اور ایک یمنی بانا میرے ہاتھ میں چپک کر رہ گیا۔

ادھر رسول اللہ ﷺ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی، وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا اور وہ شہید کردیے گئے، پھر جعفر نے لیا وہ بھی شہید کردیے گئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا اور وہ بھی شہید کردیے گئے۔ اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ ) اللہ نے ان پر فتح عطا کی۔ ( صحیح بخاری ، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں