سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 225


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 225

چند اہم سرایا:

غزوۂ ذات الرقاع سے واپس آکر رسول اللہ ﷺ نے شوال ۷ ھ تک مدینہ میں قیام فرمایا اور اس دوران متعدد سرایا روانہ کیے۔ چند کی تفصیل یہ ہے :

سریۂ قدید : (صفر یا ربیع الاول ۷ ھ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سریہ غالب بن عبد اللہ لیثی کی کمان میں قدید کی جانب قبیلہ بنی ملوح کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا، وجہ یہ تھی کہ بنوملوح نے بِشر بن سُوید کے رفقاء کو قتل کردیا تھا اور اسی کے انتقام کے لیے اس سریہ کی روانگی عمل میں آئی تھی، اس سریہ نے رات میں چھاپہ مار کر بہت سے افراد کو قتل کردیا اور ڈھور ڈنگر ہانک لائے، پیچھے سے دشمن نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ تعاقب کیا، لیکن جب مسلمانوں کے قریب پہنچے تو بارش ہونے لگی اور ایک زبردست سیلاب آگیا جو فریقین کے درمیان حائل ہوگیا، اس طرح مسلمانوں نے بقیہ راستہ بھی سلامتی کے ساتھ طے کر لیا۔

سریہ میفعہ: (رمضان ۷ھ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سریہ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی کی قیادت میں بنو عوال اور بنو عبد بن ثعلبہ کی تادیب کے لیے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قبیلہ جہینہ کی شاخ حرقات کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا، مسلمانوں کی تعداد ایک سو تیس تھی، انہوں نے دشمن پر یکجائی حملہ کیا اور جس نے بھی سر اٹھایا اسے قتل کردیا، پھر چوپائے اور بھیڑ بکریاں ہانک لائے، اسی سریہ میں حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے نہیک بن مرداس کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے باوجود قتل کردیا تھا اور اس پر نبی ﷺ نے بطور عتاب فرمایا تھا کہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ معلوم کرلیا کہ وہ سچاتھا یا جھوٹا؟

سریہ خیبر : (شوال ۷ ھ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سریہ تیس سواروں پر مشتمل تھا اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی قیادت میں بھیجا گیا تھا، وجہ یہ تھی کہ اسیر یا بشیر بن زَرام بنو غطفان کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کے لیے جمع کررہا تھا، مسلمانوں نے اسیر کو یہ امید دلاکر کہ رسول اللہ ﷺ اسے خیبر کا گورنر بنا دیں گے، اس کے تیس رفقاء سمیت اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا، لیکن قرقرہ نیار پہنچ کر فریقین میں بدگمانی پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں اسیر اور اس کے تیس ساتھیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

سریہ یمن وجبار: (شوال ۷ھ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جبار کی جیم کو زبر۔ یہ بنو غطفان، اور کہا جاتا ہے کہ بنو فزارہ اور بنو عذرہ کے علاقہ کا نام ہے، یہاں حضرت بشیر بن کعب انصاریؓ کو تین سو مسلمانوں کی معیت میں روانہ کیا گیا، مقصود ایک بڑی جمعیت کو پراگندہ کرنا تھا جو مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے جمع ہورہی تھی، مسلمان راتوں رات سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے، جب دشمن کو حضرت بشیر کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، حضرت بشیر نے بہت سے جانوروں پر قبضہ کیا، دو آدمی بھی قید کیے اور جب ان دونوں کو لے کر خدمتِ نبوی ﷺ میں مدینہ پہنچے تو دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔

سریہ غابہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے امام ابن قیم نے عمرۂ قضاء سے قبل ۷ھ کے سرایا میں شمار کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ جشم بن معاویہ کا ایک شخص بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر غابہ آیا، وہ چاہتا تھا کہ بنوقیس کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے جمع کرے، نبی ﷺ نے حضرت ابو حَدْرَد کو صرف دو آدمیوں کے ہمراہ روانہ فرمایا کہ اس کی خبر اور اس کا پتہ لے کر آئیں، وہ سورج ڈوبنے کے وقت ان لوگوں کے پاس پہنچے، ابو حدرد ایک جانب چھپ گئے اور ان کے دونوں ساتھی دوسری جانب چھپ گئے، ان لوگوں کے چرواہے نے دیر کردی، یہاں تک کہ شام کی سیاہی جاتی رہی، چنانچہ ان کا رئیس تنہا اٹھا، جب ابوحدرد کے پاس سے گزرا تو انہیں تیر مارا جو دل پر جاکر بیٹھ گیا اور وہ کچھ بولے بغیر جا گرا، ابو حدرد نے سر کاٹا اور تکبیر کہتے ہوئے لشکر کی جانب دوڑ لگائی، ان کے دونوں ساتھیوں نے بھی تکبیر کہتے ہوئے دوڑ لگائی، دشمن بھاگ کھڑا ہوا اور یہ تینوں حضرات بہت سے اونٹ اور بکریاں ہانک لائے۔

ان سرایا کی تفصیلات رحمۃ للعالمین ۲/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱ ، زاد المعاد ۲/۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۰ ، تلقیح الفہوم مع حواشی ص ۳۱ اور مختصر السیرہ للشیخ عبداللہ نجدی ص ۳۲۲، ۳۲۳ ، ۳۲۴ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

==================>>  جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں