سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 234


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 234

اسلامی لشکر مکہ کی راہ میں:

۱۰ رمضان المبارک ۸ ھ کو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ چھوڑ کر مکے کا رخ کیا، آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے، مدینہ پر ابو رھم غفاریؓ کی تقرری ہوئی۔

جحفہ میں یا اس سے کچھ اوپر آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ملے، وہ مسلمان ہوکر اپنے بال بچوں سمیت ہجرت کرتے ہوئے تشریف لارہے تھے، پھر اَبوَاء میں آپ ﷺ کے چچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن اُمیہ ملے، آپ نے ان دونوں کو دیکھ کر منہ پھیر لیا، کیونکہ یہ دونوں آپ کو سخت اذیت پہنچایا کرتے اور آپ کی ہجو کیا کرتے تھے، یہ صورت دیکھ کر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کے چچیرے بھائی اور پھوپھی زاد بھائی ہی آپ کے یہاں سب سے بدبخت ہوں، ادھر حضرت علیؓ نے ابو سفیان بن حارث کو سکھایا کہ تم رسول اللہ ﷺ کے سامنے جاؤ اور وہی کہو جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے کہا تھا کہ:

قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ آثَرَ‌كَ اللَّـهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ (۱۲:۹۱)

''اللہ کی قسم! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت بخشی اور یقیناً ہم خطا کار تھے۔''

کیونکہ آپ ﷺ یہ پسند نہیں کریں گے کہ کسی اور کا جواب آپ سے عمدہ رہا ہو، چنانچہ ابو سفیان نے یہی کیا اور جواب میں فور اً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قَالَ لَا تَثْرِ‌يبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ‌ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ (۱۲:۹۲)

''آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، اللہ تمہیں بخش دے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔''

اس پر ابو سفیان نے آپ کو چند اشعار سنائے، جن میں سے بعض یہ تھے:

لـعـمرک إنـي حـین أحمل رأیۃ لـتـغـلب خیــل اللات خیل محمد
لکالمدلج الحیران أظلم لیلــہ فہـذا أوانـي حین أہـدی فأہتـــدی
ہدانی ہاد غیر نفسی ودلـــنی علی اللہ من طردتہ کل مطـــــــرد

''تیری عمر کی قسم! جس وقت میں نے اس لیے جھنڈا اٹھایا تھا کہ لات کے شہسوار محمد کے شہسوار پر غالب آجائیں تو میری کیفیت رات کے اس مسافر کی سی تھی جو تیرہ وتار رات میں حیران وسرگردان ہو، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مجھے ہدایت دی جائے اور میں ہدایت پاؤں، مجھے میرے نفس کی بجائے ایک ہادی نے ہدایت دی اور اللہ کا راستہ اسی شخص نے بتایا، جسے میں نے ہر موقع پر دھتکار دیا تھا۔ ''

یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اس کے سینے پر ضرب لگائی اور فرمایا: تم نے مجھے ہر موقع پر دھتکارا تھا، بعد میں ابو سفیان کے اسلام میں بڑی خوبی آگئی، کہا جاتا ہے کہ جب سے انہوں نے اسلام قبول کیا، حیاء کے سبب رسول اللہ ﷺ کی طرف سر اٹھا کر نہ دیکھا، رسول اللہ ﷺ بھی ان سے محبت کرتے تھے اور ان کے لیے جنت کی بشارت دیتے تھے اور فرماتے تھے: مجھے توقع ہے کہ یہ حمزہ کا بدل ثابت ہوں گے، جب ان کی وفات کا وقت آیا تو کہنے لگے: مجھ پر نہ رونا، کیونکہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کوئی گناہ کی بات نہیں کہی۔ (زاد المعاد ۲/۱۶۲ ، ۱۶۳)

(واضح رہے کہ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد محترم حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نہیں ہے، بلکہ آپ ﷺ کے چچا حارث کے بیٹے سفیان ہیں۔ ناقل)

رسول اللہ ﷺ نے اپنا سفر جاری رکھا، آپ اور صحابہ روزے سے تھے، لیکن عسفان اور قُدَید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر آپ نے روزہ توڑ دیا۔ ( صحیح بخاری ۲/۶۱۳) اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام نے بھی روزہ توڑ دیا۔

اس کے بعد پھر آپ نے سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ رات کے ابتدائی اوقات میں مرالظہران، وادی فاطمہ، پہنچ کر نزول فرمایا، وہاں آپ کے حکم سے لوگوں نے الگ الگ آگ جلائی، اس طرح دس ہزار (چولہوں میں) آگ جلائی گئی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کو پہرے پر مقرر فرمایا۔

==================>> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں