سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 295



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 295

وفات سے پانچ دن پہلے:

وفات سے پانچ دن پہلے روز چہار شنبہ (بدھ) کو جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی۔ اور غَشی طاری ہوگئی۔ آپﷺ نے فرمایا : مجھ پر مختلف کنوؤں کے سات مشکیزے بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جاکر وصیت کرسکوں۔ اس کی تکمیل کرتے ہوئے آپﷺ کو ایک لگن میں بٹھا دیا گیا۔ اور آپ ﷺ کے اوپر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ ''بس۔'' ''بس '' کہنے لگے۔

اس وقت آپ ﷺ نے کچھ تخفیف محسوس کی۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے، سر پر پٹی معیالی بندھی ہوئی تھی، منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ یہ آخری بیٹھک تھی جو آپﷺ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا:

لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپﷺ کے قریب آگئے۔ پھر آپﷺ نے جو فرمایا اس میں یہ فرمایا: ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔'' ایک روایت میں ہے کہ ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنایا ۔''
(صحیح بخاری ۱/۶۲ مؤطا امام مالک ص ۳۶۰)

آپﷺ نے یہ بھی فرمایا : ''تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔''
(موطا امام مالک ص ۶۵)

پھر آپ ﷺ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ''میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔''

اس کے بعد آپﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نماز پڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عداوت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپﷺ نے فضل بن عباس سے فرمایا : انہیں ادا کردو۔ اس کے بعد انصار کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا :

'' میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے بد کار سے درگزر کرنا۔'' ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : '' لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے بدکاروں سے درگزر کرے۔''(صحیح بخاری ۱/۵۳۶)

اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:

'' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے د ے، یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔''

حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر حضرت ابو بکرؓ رونے لگے۔ اور فرمایا : ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا : اس بڈھے کو دیکھو ! رسول اللہﷺ تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ ( لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہﷺ تھے۔ اور ابو بکرؓ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔( متفق علیہ : مشکوٰۃ ۲/۵۴۶، ۵۵۴)

پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابو بکرؓ ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکرؓ کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکرؓ کے دروازے کے۔( صحیح بخاری ۱/۵۱۶)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں