سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 292



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 292

آپ ﷺ کے دور نبوت کی آخری وحی:

حضرت عبداللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے کہ سورۂ نصر ایام تشریق کے وسط میں منٰی کے مقام پر نازل ہوئی، اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر وہ مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جس کے اختتام پر لوگوں کی شہادت پر اللہ کو گواہ بنایا، جس وقت یہ سورت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ یہ سمجھ گئے کہ اب نبی ﷺ کا آخری وقت آگیا ہے، اس سے چند دن قبل ہی سورۂ مائدہ کی آیت ۳ نازل ہوچکی تھی جس میں فرمایا گیا:

'' آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا " ( سورۂ مائدہ : ۳ )

تکمیل دین کی آیت کا نزول اس بات کا اشارہ تھا کہ کارِ نبوت اختتام کو پہنچ چکا ہے، چنانچہ مزاج دانِ رسول حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ مضطرب ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ سورۂ نصر مکمل نازل ہونے والی آخری سورت ہے جس طرح سورۂ فاتحہ مکمل نازل ہونے والی پہلی سورت تھی حالانکہ اس سے پہلے سورہ ٔ اقراء اور سورۂ مدثر کی چند آیات نازل ہوچکی تھیں، تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں کل (۸۰) دن رہے۔

سورۂ نصر کا ایک نام سورۃ التوریع بھی ہے، ( کسی کو رخصت کرنے کو توریع کہا جاتا ہے ) اس کے بعد آیت کلالہ (جو سورۂ نساء کی آخری سورت ہے ) نازل ہوئی جب کہ حضورﷺ کے اس دنیا کے قیام کے پچاس دن باقی رہ گئے تھے، حضرت براءؓ بن عازب نے اسے سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت بیان کیا ہے، حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے ابھی ۳۵ دن باقی تھے کہ سورۂ توبہ کی آیات ۱۲۸ اور ۱۲۹ نازل ہوئیں جنھیں حضرت ابیؓ بن کعب سب سے آخر نازل ہونے والی آیت کہتے ہیں :

" تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں(۱۲۸ ) پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے''
( سورۂ توبہ: ۱۲۹ )

حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۱ قرآن میں نازل ہونے والی آخری آیت ہے۔

" اور اس دن سے ڈرو جبکہ تم اللہ کے حضورلوٹ جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا '' ( سورۂ بقرہ ۲۸۱ )

حضرت سعیدؓ بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے (۹) دن بعد حضورﷺ کی وفات ہوئی، حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے، اس سورۃ کے نزول کے بعد آپﷺ ہر نماز کے بعد دعا فرماتے :

" سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی"

حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آخری زمانہ میں آپ ﷺ اُٹھتے بیٹھتے " سبحان اللہ و بحمدہ " پڑھا کرتے تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس فرماتے ہیں کہ سورۂ نصر کے نزول کے بعد آنحضرت ﷺ آخرت کے لئے ریاضت میں حد درجہ مشغول ہوگئے، حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ عبادت میں اتنا مجاہدہ فرمایا کہ پاؤں متورم ہوگئے تھے۔

حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وصال سے ایک مہینہ پہلے چند خاص صحابہؓ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں طلب فرمایا، جب سب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ اشکبار ہوئے، یہ کیفیت دیکھ کر سب پر گریہ کی حالت طاری ہوگئی، آپﷺ نے فرمایا :

" میں تم کو تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، تم کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم کو اللہ کے عذاب سے ڈ راتا ہوں، میں نذیر مبین ہوں، تم کو ہر گز تکبر نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے تم کو امر فرمایا ہے کہ " یہ دارِ آخرت ہم انہیں کو دیں گے جو زمین میں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ فساد مچاتے ہیں اور انجام کار متقیوں کے لئے ہے اور دوزخ متکبرین کا ٹھکانہ ہے "

ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپﷺ کو بھی موت آئے گی ؟ فرمایا: جدائی کا وقت قریب ہے، عرض کیا آپ ﷺ کو غسل کون دے گا؟ فرمایا ! میرے اہل بیت کے مرد جو میرے قریبی عزیز ہیں، عرض کیا: آپ ﷺ کو کن کپڑوں میں کفنائیں؟ فرمایا: جو میرے جسم پر ہو، یا چاہو تو مصری، یا یمنی حُلہ، یا سفید کپڑے میں۔ پوچھا … کیا ہم آپ ﷺ پر نماز پڑھیں؟ اس کے بعد سب پر گریہ طاری ہوگیا، فرمایا! صبر کرو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنے نبی کی جانب سے خیر عطا فرمائے گا۔
ارشاد ہوا:

" کفن میں لپیٹ کر قبر کے کنارے رکھ دو، تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے ہٹ جاؤ تاکہ سب سے پہلے جبرئیل ؑ نماز پڑھیں، پھر میکائیل ؑ پھر اسرافیل ؑ پھر ملک الموت تمام فرشتوں کے ساتھ ، پھر تمام لوگ گروہ در گروہ، ابتداء میرے اہل بیت کریں پھر اہل بیت کی عورتیں، اس کے بعد تمام اصحاب، نوحہ و فریاد سے مجھے اذیت نہ دینا، میرا سلام ان لوگو ں تک پہنچا دینا جو غائب ہیں، جو میرے دین کی پیروی کر ے اور میری سنت کی اتباع کرے قیامت تک میرا ان پر سلام ہو "

عرض کیا :
یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کو قبر میں کون اُتارے گا ؟ فرمایا: میرے اہل بیت تمام فرشتوں کے ساتھ جنھیں تم دیکھ نہ سکو گے مگر وہ تمہیں دیکھتے ہوں گے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی دنیا سے رخصت ہی نہیں ہوتا جب تک جنت میں اپنا گھر نہ دیکھ لے، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے، حضرت عائشہؓ یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا ، " میں نے رفیق اعلیٰ کو اختیار کیا " ، حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد آپ ﷺ نے محرم اور صفر کے مہینوں میں مدینہ ہی میں قیام فرمایا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں