سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 297



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 297

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت:

رسول اللہ ﷺ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپ ﷺ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۂ والمرسلاتِ عُرْفا پڑھی۔( صحیح بخاری عن ام الفضل ، باب مرض النبیﷺ ۲/۶۳۷)
لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی۔ نماز عشاء کے وقت دریافت فرمایا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا : نہیں آپ ﷺ کا انتظار ہے، یہ سن کر غسل فرمایا ، باہر نکل کھڑے ہوئے تو غش آگیا، افاقہ ہوا تو پھر نماز کے بارے میں دریافت فرمایا، کھڑے ہو ئے تو پھر غشی طاری ہوگئی، فرمایا : ابو بکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عائشہؓ نے کہا … وہ بڑے نرم دل ہیں آپ ﷺ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکیں گے، روئیں گے اور لوگ کچھ سن نہ سکیں گے، بہتر ہے کہ آپ ﷺ عمرؓ کو حکم دیں، آپﷺ نے وہی حکم دُہرایا، حضرت عائشہؓ نے دوبارہ درخواست کی اور حضرت حفصہؓ سے بھی کہلوایا۔

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کا حکم آکر سنایا، حضرت ابو بکرؓ نے اپنا حق حضرت عمرؓ کو منتقل کیا، دوسری روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ بن ربیعہ کو حکم دیا کہ باہر لوگوں سے کہہ دیں کہ نماز ادا کریں، وہ باہر نکلے تو حضرت عمرؓ سامنے تھے، ان سے کہا کہ آپ نماز پڑھا دیں، روضتہ الاحباب کی روایت کی بموجب حضرت عمرؓ نے نماز شروع کر دی، حضور ﷺ نے پوچھا … کیا یہ عمرؓ کی آواز ہے ؟ جواب ملا : جی ہاں : ارشاد فرمایا: اللہ اور مومنین اس کو پسند نہیں کریں گے، پھر سرِ مبارک کھڑکی سے باہر نکالا اور فرمایا! نہیں ، نہیں ابو بکرؓ کو چاہیے کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عمرؓ مُصلّٰی سے پیچھے ہٹ گئے اور حضرت ابو بکرؓ نے پہلی نماز کی امامت فرمائی۔

دوسرے روز مرض میں کچھ افاقہ ہوا تو ظہر کے وقت جب کہ حضرت ابوبکرؓ نے نماز شروع کر دی تھی آپ ﷺ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے پاؤں گھسیٹتے مُصلّٰی تک پہنچے اور حضرت ابو بکرؓ کے بائیں پہلو میں بیٹھ گئے، حضرت ابو بکرؓ آنحضرت ﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور باقی لوگ حضرت ابو بکرؓ کی، حضرت ابو بکرؓ بلند آواز سے تکبیر کہہ رہے تھے تا کہ لوگ سن لیں، اس کے بعد حضرت ابو بکر ہی نماز پڑھاتے رہے اور آپ ﷺ کی وفات سے پہلے (۱۷) نمازیں پڑھائیں، کتاب " اصح السّیر" کی بموجب (۲۱) نمازیں پڑھائیں۔

حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے کسی امتی کے پیچھے نماز ادا نہیں کی بجز ایک بار پوری نماز حضرت ابو بکرؓ کی اقتداء میں اور ایک دفعہ سفر میں ایک رکعت حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے پیچھے، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پیچھے ایک رکعت فوت شدہ ادا کرنے کے بعد فرمایا: کسی نبی نے ایسا نہیں کیا ہے کہ اس نے اپنی امت کے ایک صالح فرد کے پیچھے نماز ادا کی ہو۔

نبیﷺ کی حیات مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔ جمعرات کی عشاء ، دوشنبہ کی فجر اور بیچ کے تین دنوں کی پندرہ نمازیں۔( بخاری مع فتح الباری ۲/۱۹۳ ، حدیث نمبر ۶۸۱ ، مسلم : کتاب الصلاۃ ۱/۳۱۵ حدیث نمبر ۱۰۰ ، مسند احمد ۶/۲۲۹)
حضرت عائشہؓ نے نبیﷺ سے تین یا چار بار مراجعہ فرمایا کہ امامت کا کا م حضرت ابو بکرؓ کے بجائے کسی اور کو سونپ دیں۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ لوگ ابو بکرؓ کے بارے میں بد شگون نہ ہوں۔( دیکھئے: بخاری مع فتح الباری ۷/۷۵۷ حدیث نمبر ۴۴۴۵ مسلم کتاب الصلاۃ ۱/۳۱ حدیث نمبر ۹۳، ۹۴)

لیکن نبیﷺ نے ہر بار انکار فرمادیا۔ اور فرمایا : تم سب یوسف والیاں ہو، ابو بکرؓ کو حکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کررہی تھیں وہ بظاہر تو اس کے فعل کے گھٹیا پن کا اظہار کررہی تھیں۔ لیکن یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر جب انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں تو معلوم ہوا کہ یہ خود بھی درپردہ ان پر فریفتہ ہیں۔ یعنی وہ زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ لیکن دل میں کچھ اور ہی بات تھی۔ یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر تو رسول اللہﷺ سے کہا جارہا تھا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں۔ آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو گریہ ٔ وزاری کے سبب قراء ت نہ کرسکیں گے یا سنا نہ سکیں گے۔ لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ حضور اسی مرض میں رحلت فرماگئے تو ابوبکرؓ کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا۔ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی اس گذارش میں دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم بھی شریک تھیں۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا: تم سب یوسف والیاں ہو، یعنی تمہارے بھی دل میں کچھ ہے اور زبان سے کچھ کہہ رہی ہو۔( صحیح بخاری ۱/۹۹)

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں