سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 300



سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔۔ قسط: 300

نزع رواں:

پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی۔ اور حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کو اپنے اُوپر سہارا دے کر ٹیک لیا۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے لَبّے اور سینے کے درمیان وفات پائی۔ اور آپ ﷺ کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپﷺ کا لعاب اکٹھا کردیا۔

ہوا یہ کہ عبد الرحمن بن ابی بکرؓ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اور میں رسول اللہﷺ کو ٹیکے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپ ﷺ مسواک چاہتے ہیں۔ میں نے کہا : آپ ﷺ کے لیے لے لوں ؟ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ! میں نے مسواک لے کر آپ ﷺ کو دی تو آپ کو کڑی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا: اسے آپ ﷺ کے لیے نرم کردوں ؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ! میں نے مسواک نرم کردی، اور آپ ﷺ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی۔ آپ ﷺ کے سامنے کٹورے میں پانی تھا۔ آپﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتے تھے۔

لاإلہ إلا اللّٰہ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔
( صحیح بخاری ۲/۶۴۰)

مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ ﷺ نے ہاتھ یا انگلی اٹھا ئی، نگاہ چھت کی طرف بلند کی۔ اور دونو ں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کان لگایا تو آپ ﷺ فرمارہے تھے :

''ان انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر، اور مجھے رفیقِ اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ ! رفیق اعلیٰ ۔''

(ایضاً صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ وباب آخرما تکلم النبیﷺ ۲/۶۳۸ تا ۶۴۱)
آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا۔ اور آپﷺ رفیقِ اعلیٰ سے جا لاحق ہوئے۔ إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

یہ واقعہ ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دوشنبہ کو چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت نبیﷺ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔

غم ہائے بیکراں:

اس حادثۂ دل فگار کی خبر فوراً پھیل گئی، اہلِ مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔ آفاق واطراف تاریک ہوگئے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور جس دن رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ (دارمی ، مشکوٰۃ ۲/۵۴۷۔)

انہی حضرت انسؓ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت ہے کہ جس دن رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے ہر چیز روشن ہوگئی۔ اور جس دن آپ ﷺ نے وفات پائی ہر چیز تاریک ہوگئی۔ اور ابھی ہم نے رسول اللہﷺ سے اپنے ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے، بلکہ آپﷺ کے دفن ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں کو بدلا ہوا محسوس کیا۔ (جامع ترمذی ۵/۵۸۸، ۵۸۹ ))

آپﷺ کی وفات پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرطِ غم سے فرمایا:

((یا أبتاہ ، أجاب رباً دعاہ ، یا أبتاہ، من جنۃ الفردوس مأواہ، یا أبتاہ، إلی جبریل ننعاہ ۔)) (صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ ۲/۶۴۱)

''ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے اباجان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ ﷺ کے موت کی خبر دیتے ہیں۔''

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں