سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق

 


سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق

بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ


الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء

یہ سورہ مبارکہ زبر دست فضیلت کی حامل ہے۔سیدنااُ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز میں سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکا، اُن کا بچہ یحییٰ اُس کے قریب لیٹا ہوا تھا وہ ڈرے کہ گھوڑابچے کو کہیں کچل نہ ڈالے، اُنہوں نے قرآن پڑھنا بند کر دیا توگھوڑا بھی پر سکون ہوگیا۔ پھر جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا دوبارہ مضطرب ہو گیا۔ تیسری مرتبہ جب اُنہوں نے نماز ختم کر کے سر اُونچا کیا تو ایک بادل سا نظر آیا جس میں جلتے ہوئے چراغوں کی مانند روشنی تھی۔ یہ واقعہ نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ سکینت تھی ٫یہ فرشتے تھے جو تیرا قرآن سننے کے لیے آسمان سے نازل ہو ئے تھے۔1

اسی طر ح سورہ کہف کی آخری اور پہلی دس آیات فتنہ دجال سے ڈھال ہیں۔نبی کریمﷺ فرماتے ہیں :

''جس نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔''2

ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے اس لیے کہ دجل آج جتنا زوردار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو خلافت کا نظام مفقود ہے، دوسراہمارا ایمان کمزور اور علم ناقص ہے جس کی وجہ سے فتنہ قبول کرنے میں کچھ دیرنہیں لگتی۔پھر کفارگمراہ کرنے کے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں، مواصلات کا نظام دنیا بھر کے کفر و شرک، فحاشی و عریانی کو اہل اسلام میں نشر کررہا ہے۔ ان حالات میں صرف اور صرف وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے بچالے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور جاہلیت کے حملوں سے باخبر رہنا بے حد ضروری ہے۔

اس سورت کی اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہو گی کہ اس میں ایک ایسا واقعہ بیان ہوا ہے جس میں اللہ کی عبادت کے لیے زبردست رہنمائی ہے خاص کر ایسے دور میں جب اہل توحید کمزور اور اجنبی ہوں، کفر کی ہر سو حکمرانی ہو، قوت و غلبہ دشمنان اسلام کو حاصل ہو، ایسے مشکل حالات میں اللہ کی توحید پر قائم رہنا، وقت کے باطل خدائوں کا انکار کرنا، پھر باطل سے مفاہمت، سودے بازی کرنے کی بجائے اللہ کے لیے سب کو ناراض کر لینا، سب سے علیحدگی اختیار کر لینا، بس ایک اللہ کا ہی ہو رہنا اس واقعہ کا بنیادی سبق ہے۔ جسے جاننے کے بعد کوئی شخص یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ آج ہم کمزور ہیں، ہر طرف کفر، شرک، بدعت، اور بے حیائی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دھوکہ بازی ہے۔اس لیے ہم دین کی بنیاد پر باطل سے ٹکر نہیں لے سکتے۔یہ واقعہ اُن لوگوں کے فلسفے کو رد کرتا ہے جو کہتے ہیں اتنے تھوڑے لوگ حق کا آوازہ بلند نہیںکر سکتے ہیں، لڑکیوں کے رشتوں کے لیے، لڑکوں کی نوکری کے لیے اور یہاں زندہ رہنے کے لیے کہتے ہیں، بھائی اس دنیا کا بھی کچھ خیا ل کرو، پتہ نہیں تم کس دنیاکی بات کر تے ہو۔

(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا)

''سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔''

یہ وہ کتاب ہے جو اپنے اندرہمارے لیے ہر قسم کی راہنمائی لیے ہوئے ہے۔(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ) ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر ہر مثال بیان کر دی ہے۔ جس کو جس مشکل، پریشانی میں بھی اللہ کا راستہ دیکھنا ہے وہ قرآن کے ذریعے سے اللہ کا را ستہ اس طرح سے دیکھ سکتا ہے کہ اندھیرے قریب نہ پھٹکیں گے او ر وہ اجالوں کے اندر سفر کرتا ہوا اس پگڈنڈی پر ایسا گامزن ہوگا کہ اس کی آخری منزل جنت کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔ یہ سیدھا اور مستقیم راستہ ہے جو اللہ کی خوشنودی اور جنت کی طرف جا تا ہے۔

(وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا o مَّا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِآبَائِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِن یَقُولُونَ اِلَّا کَذِبًا)

''اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔اس بات کا انہیں کوئی علم نہیں اورنہ ہی ان کے آباء و اجداد کو تھا، بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔''

بیٹا بنانا اللہ رب العزت کے ساتھ گستاخی اور تکبر کی ایک مثال ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ ، یہودیوں نے عزیر کواللہ کا بیٹا کہا۔ صادق المصدوقﷺنے فرما یا تھا ''کہ تم پہلوں کا راستہ چلو گے یہاں تک جیسے بالشت بالشت کے برابر ہو جاتی ہے تم انکے برابر ہو جاؤگے۔ اور اگر وہ کسی جانور کے بل میں گھسے تو تم بھی گھسو گے۔ پوچھا گیا کیا آپ کی مرادیہودونصاریٰ ہیں۔ فرمایا اور کون ہیں۔''

انہوں نے کہا خدا تین ہیں (معاذاللہ) مریم، عیسیٰ اور اللہ ربّ العزت۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ہر چیز ہی خدا ہے، وحدت الوجود کا خبیث عقیدہ جسے غالی صوفیاء نے اپنایا اُ س کی رو سے کائنات کی ہر چیز اللہ کا مظہر ہے، یقینا یہ یہود ونصاریٰ کے کفر سے کہیں بڑھ کر کفرکرنے والے ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بیٹے بنائے تو اسلام کے دعویداروں نے سیدھانبی ۖ کو اللہ کے نورکاٹکڑاور جزوبنادیا اور کہا:

((الصلوٰة والسلام علیک یا نورمن نوراللّٰہ.))

کسی نے یوں کہا :

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر

اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر​

(وَجَعَلُوا لَہُ مِنْ عِبَادِہِ جُزْئً ا اِنَّ الْاِنسَانَ لَکَفُور مُّبِیْن)

''انہوں نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزو بنا دیابے شک انسان صریح ناشکرا ہے۔''


انسان تو ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے اور اس محتاجی کا وہ دن رات نظارہ کرتا ہے، دن رات اللہ تبارک وتعالیٰ کے چلائے سے چلتا ہے۔ جسے دلیل چاہیے صرف ایک چھوٹا سا کا م کرے، اپنے ناک اورمنہ پر اچھے طریقے سے ہاتھ رکھے تاکہ سانس نہ آ ئے۔ اسے تھوڑی دیر میں پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنا عا جز ہے اور اس کا رب کتنا عظیم ہے۔رب ذوالجلال والاکرام کے بارے میں یہ گندی بات، اتنی بڑی گالی کہ اللہ نے بیٹا بنایا، اللہ کے نور سے کو ئی جدا ہوا۔ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔


(فَلَعَلَّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ اِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا)

''آپ شاید ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے اس غم سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔''


نبی اکرم ﷺاور ہر نبی و رسول قوم کا سخت ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو جہنم کی وعید سنا کر خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ جہنم کی وعید اسی لیے سناتا ہے کہ شاید وہ اس سے ڈر کر جنت کا راستہ اختیار کرلیں اور وہ جنت کی خوشخبری بار بار اس لیے سناتا ہے کہ شاید وہ مغفرت طلب کرتے ہوئے بار گاہ الٰہی میں جنت کھری کر لیں۔وہ انھیں مغفرت پر ابھارتا ہے، انہیں امید دلاتا ہے۔جو عمل کرنا چا ہے اس کے لیے اللہ کا دین موزوں ہے۔البتہ جس کی نیت خراب ہو اور جس کی کو شش صادق نہ ہو اس کے لیے کو ئی راستہ نہیں۔ اور جو دین کے متعلق یہ سمجھے کہ اس کے فلاں اور فلاں احکامات پر چلنا ممکن نہیں تو وہ اللہ رب العزت پر بہتان تراش رہا ہے۔ اللہ کا سارا دین ہی قابل عمل ہے۔ فرمایا کہ آپ غمزدہ نہ ہوں۔ آپ تو اللہ کا دیا ہو ا پیغام پہنچا رہے ہیں یہی بد نصیب ہیں۔


(اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo وَاِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْْہَا صَعِیْدًا جُرُزًا)

''جو کچھ ارض پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔''


اس میں لطیف نکتہ ہے کہ اے نبی ﷺ! آپ اتنا غم نہ کریں کہ اپنی جان کے درپے ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی رونق اور لذات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ورنہ آپ کا رسول ہونا ان پر عیاں ہے۔


(الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَاء ہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون) (البقرہ : ١٤٦)

''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول اور اسلام ) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو، تب بھی ان میں یقینا ایک گروہ ایسا ہے جو عمدًا حق چھپاتا ہے۔''


آپ یہ غم ہرگزنہ کریں کہ آپ نے منصب نبوت کا حق اداکرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہے، آپ تو حق پہنچا رہے ہیں، یہی اس دنیا پر ریجھ گئے ہیں۔اہل حق کو ہمیشہ یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جب یہ شرک کرنے والے کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے تو پھر یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور کیوں جہنم کی طرف سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں۔جب اہل شرک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر تم ہمارے عقیدہ کو باطل ثابت کردو تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اس پرداعیان حق غمگین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کہیں غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے واقعتا انہیں سمجھ نہیں آ رہی جبکہ حقیقت میں غیراللہ کے پجاری یہ بات اہل ایمان کو ستانے کے لیے کرتے ہیں۔اصل میں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ توحید کے راستے پر چلتے ہوئے ہماری رنگین دنیا ہم سے چھن جائے گی۔توحید کو عملًا قبول نہ کرنے کا اکثروبیشتر سبب دوستیاں، خاندان، رشتہ داریاں اوراس زمین کی خوبصورتیوں کے چھن جانے کا خوف ہے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کفر کرتے ہیں۔


آج کی دنیا میں بہت سے لوگوں کو کلمہ پڑھنے کے بعد ساری سمجھ ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ اورتو اور کلمہ نہ پڑھنے والوں کے پاس بھی حق اس وضاحت کے ساتھ پہنچ چکاہے کہ اگر وہ سچے دل سے حق جاننا چاہیں تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ یورپ وامریکہ میں بے شمار لوگ مسلمان ہو چکے اورہو رہے ہیں، روس اور چائنہ تک میں اسلام پھیل چکا ہے، اسلام کی کرنیں ہر طرف روشنی کر رہی ہیں۔ آج کے اس پڑھے لکھے دور میں، مواصلات کے ان ذرائع کے ہوتے ہوئے جو اس وقت اللہ نے انسان کو دے دئیے ہیں۔ کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں حق جاننا چاہتا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں چلتا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج دنیا بھی پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور خوبصورت ہو گئی ہے۔ آج ایک مزدور آدمی جو سارا دن مزدوری کرتا ہے، دوسو، تین سوروپے خون پسینا ایک کر کے کما تا ہے، بدنصیبی دیکھئے وہ بھی 15روپے میں چائے کا کپ پینے کے ساتھ اس بے حیا عو رت کاڈانس دیکھتا ہے جس کا ڈانس براہ راست دیکھنے کے لیے لوگ 10,10 ہزار کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ یہ عیاشی ہے جو آج گھر گھر پہنچا دی گئی ہے۔ جیسے نبی کریمﷺنے فرمایا تھا: کہ گھر گھر عورتیں ناچیں گی اور گانے گائے جائیں گے۔ اللہ کی بغاوت و نافرمانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیا اور اس کی خوبصورتی میں مگن ہیں۔


(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ نَبَاَہُم بِالْحَقِّ ط اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی)

''ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتلاتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی۔''


یہ قصہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے کہ امت میں بعض اوقات اتنی قدرت نہیں ہوتی کہ کفر کے ساتھ لڑ سکیں۔ اورحالات ایسے بن جاتے ہیں اگر وہ انہی میں رہے تو ڈر ہے کہ انہیں کفر میں گھسیٹ لیا جائے، ایسے حالات میں فرض ہے کہ وہ جگہ چھوڑ دیں چاہے جنگلوں میں جاکرہی اللہ کی عبادت کیوں نہ کرنی پڑے، مگراللہ کے ساتھ شرک نہ کریں۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ کہ اہل ایمان پر لڑائی مسلط کر دی جاتی ہے تب اپنا دفاع کرنافرض ہے۔ جیسا عراق اور افغانستان میں ہوا۔ تو پھر لڑنے کا ہی حکم ہے وہاں سے بھاگنے کا حکم نہیں۔ آج اسی جہاد کی بدولت کفار پرمجاہدین کی ہیبت طاری ہے، جو احیائے خلافت کے لیے، دفاع اسلام کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے میدانوں میں کھڑے ہیں۔ان کی نصرت و مدد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔اسی طرح جب معاشروں میں دعوت کاکام کرنا ممکن ہو تب بھی اس فریضہ کو ترک کرکے لوگوں سے قطع تعلقی کرنا درست نہیں ہے۔


لیکن اس بات کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ لا الٰہ الا اللہ اس دین کا وہ حصہ ہے کہ جسے کسی مصلحت کے نام پر چھپانا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ توحید ہی سب سے بڑی مصلحت ہے۔ہر وہ نیکی جسے پانے کے لیے کلمہ توحید پر سودے بازی کرنی پڑے شریعت کی نگاہ میں محض شر ہے کیونکہ دین میں ہر بھلائی توحید ہی سے پھوٹتی ہے، 'شرک و مشرکین سے براء ت، توحید کی اساس ہے۔لا الٰہ الا اللہ کے اس بنیادی اور پہلے رکن کی قربانی دیناحقیقت میں ہر خیر اور بھلائی کی قربانی دینا ہے۔پس جس بھلے کام میں لا الٰہ الا اللہ کو پس پشت ڈالنا پڑے، شرک کے رد سے زبان روکنی پڑے، مشرکوں کو جہنمی کی بجائے جنتی، ائمہ کفر کو مشائخ اسلام، داعیان شرک، کو علمائے کرام کہنا پڑے یقینا وہ کام شریعت کی نگاہ میں ایک بدترین جرم، گناہ اور برائی ہے۔ایسی برائی کو نیکی اورمصلحت کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔


یقینا ان معاشروں میں رہ کرنیکی کا حکم دینا، لوگوں کو توحید، سچائی، رزق حلال، اطاعت والدین، صلہ رحمی کی طرف بلانا اور انہیں شرک، سود، بدکاری، جھوٹ، غیبت، قطع تعلقی سمیت اُن کاموں سے روکنا جنہیں رب تعالیٰ نے حرام قرار دیانہایت عظیم کام ہے بلکہ یہی وہ کام ہیں جن کی خاطر انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے۔مگر ان سب کاموں میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ایسا مسئلہ ہے کہ جب باقی نیکیاں کرنے کے لیے اس سے خاموشی اختیار کرنی پڑے، باطل خداؤں کے انکار سے رکنا پڑے تب باقی تمام نیکیاں لغو قرار پاتی ہیں کیونکہ لا الٰہ الا اللہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے، اور شرک و مشرکین سے براء ت و عداوت لا الٰہ الا اللہ کا اساسی رکن ہے۔پس جب غیر اللہ کی عبادت کا رد نہ رہا تب کوئی اور نیکی چہ معنی دارد؟


اس واقعہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب معاشروں میں لا الٰہ الا اللہ کی پکار لگانا، باطل خداؤں سے کفر و دشمنی کرنا ممکن نہ رہے تب مومن معاشرے تو چھوڑ دیا کرتے ہیں، غاروں میں پناہ تو لے لیتے ہیں مگر وہ لا الٰہ الا اللہ پر سمجھوتہ نہیں کیاکرتے، وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کی جھوٹی الوہیت کے پردے چاک کرنے سے نہیں رکا کرتے۔


توحید کے اس فہم کی آج اسلامی تحریکوں کو شدید حاجت ہے۔آج دین کے نام پر دین کی اساس'' توحید ''پر سودے بازی ہو رہی ہے۔حرمت رسول کے نام پر اُن لوگوں کو پاسبان رسول اور محب نبی قرار دیا جارہا ہے جو آپ کے بد ترین گستاخ ہیں، جنہوں نے آپﷺکی دعوت کے اُس شجرمبارک کوجڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جسے آپ نے اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا، جس بات پر آپ کو طائف میں پتھر پڑے، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، مکہ مکرمہ سے نکالا گیا، قتل کی سازشیں کی گئیں آج اُسی بات کا انکار کرنے والوں کو حرمت رسول کے پروگراموں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔جن ائمہ کفر نے اس دھرتی پر آپﷺکے دین کو بدلا، شرک کو توحید اور کفر کو ایمان بتلایا، مساجد کو بے آباد اور شرک کے اڈوں کو آباد کیا، لوگوں کو شریعت کی بجائے طریقت کی تعلیم دی، اللہ کیساتھ سیدنا علی کو مشکل کشا، علی ہجویری کو داتا، دستگیر، گنج بخش، بری امام کو حاجت روا، بابا جمال شاہ کو اولاد دینے والا، اجمیر والی سرکار کو کائنات میں تصرف کرنے والا، اور نہ جانے کتنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا آج ایسے مشرکوں اور کافروں کو ہم نے اسلام کے نام پر اسلام کا قائد اور لیڈر بنا دیا جبکہ وہ کفر کے امام اور رہنما ہیں۔یہ سارا ظلم صرف دنیا کی چار دن کی زندگی کے لیے کیا جا رہا ہے۔کبھی یہ ظلم وطن کے مفاد میں کیا جاتا ہے اور کبھی قوم کے مفاد میں، کبھی جماعت کے مفاد میں تو کبھی مسلک کے مفاد میں، کبھی خاندان کے مفاد میںتو کبھی علاقہ اور شہر کے مفاد میں۔رب تعالیٰ نے کیا سچ فرمایا ہے :

( لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ اَوْ اَبْنَاء ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ)

'' جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور رسول کے مخالفین سے دوستی گانٹھیں۔ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں۔یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی مدد و تائید سے انہیں ہمکنار کیا۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے، یہی اللہ کی پارٹی ہے سن لو اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پائیں گے۔''

ہماری تحریکوں کے لیے کہف میں پناہ لینے والے ان نوجوانوں کے قصے میں بڑی عبرت ہے جن کا رب یوں تذکرہ کرتا ہے۔


( اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی) وہ کچھ جوان تھے، دین پر لبیک کہنے والے جوان ہی ہوا کرتے ہیں بوڑھوں پر اپنے ماحول کی چھاپ زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نئی بات مشکل ہی سے قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن پر خاندان اورمعاشرے کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔


یہ نوجوان اپنے رب پر ایمان لے آئے، ان کا یہ ایمان ایسا پکا اور سچا تھا کہ اللہ نے ان کی راہنمائی میں اضافہ کردیا، بے شک اللہ ان کے ایمان میں اضا فہ کرتا ہے جن کا ایمان سچا ہو اور وہ عمل کے میدان میں اس سچائی کو ثابت کر دیں۔ (لِیَزْدَادُوْا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ) (الفتح:٤) ہم نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔یہ عمل کرنے سے بڑھتا ہے، جو ڈر کر بیٹھ گیا اور کہا کہ یہ عمل کا زمانہ نہیں ہے، تو خطرہ ہے، اس کا ایمان، آخر کار اس کے دل سے نکل نہ جائے۔


(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ اِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)

''ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو ارض و سماوات کا رب ہے ہم ا س کے سوا کسی الٰہ کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بعید از عقل بات ہوگی ''


(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ )

 ''ہم نے ان کے دل ایمان پر جما دئیے ''


ایمان کے بعد انعام ملتا ہے۔ انعام یہ ہے کہ اللہ دلوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ طواغیت کا خوف دلوں سے جاتا رہتا ہے، اللہ پر توکل ایمان کا ایسا مزہ دیتا ہے کہ پھر آدمی باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی گواہی دیتا ہے۔ وہ دعوت حقہ لے کراٹھے، انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلا ن کیا:

( رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)

اپنی قوم کو سنا دیا کہ ہما را رب تو وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے۔ جب رب وہی ہے تو الٰہ بھی وہی ہے، تو پھر اس کے سوا کسی الٰہ کو نہ پکاریں گے۔ ہمیشہ قوموں نے رب ایک مانا ہے الٰہ کئی بنائے ہیں۔ لارب الا اللّٰہ پر کفار مکہ کا ایمان تھا لیکن انہوں نے الٰہ کئی ایک بنا رکھے تھے۔الٰہ کہتے ہیں جس کی عبادت اور تعظیم کی جائے،جس کی اطاعت کی جائے، جس کے سامنے دل اور عمل سے ذلیل ہوکر اپنے آپ کو بچھادیاجائے۔ انہوں نے کہا:

( لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)

ہم اس کے علاوہ کسی کی پکار نہ لگائیں گے۔ پکار کا شرک سب سے پہلا شرک ہے۔ کیونکہ تکالیف میں پکار لگانااورمشکلات میں کسی نہ کسی کا سہارا تلاش کرناہر انسان کی ضرورت ہے۔ جنگل کے انسان کو بھی اپنے دشمن کا خوف ہوتاہے یا کوئی نہ کوئی ضرورت لا حق ہوتی ہے۔ جب ضرورت وخوف میں وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بڑی چیز کی پناہ پکڑتا ہے اگرموحدہو تو آسمان و زمین میںغور کرکے اس کوبنانے والے کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور اگر کو تاہ نظر ہے تو کسی شجر و ہجر(جس کے اندر وہ کوئی کرشمہ دیکھتا ہے) کے سامنے جھک جاتا ہے، اسی شرک کا ان مومن جوانوں کو سامنا تھا، انہوں نے قوم و علاقہ کا کوئی مفاد خاطر میں لائے بغیر صاف صاف اعلان کیا :

(ہٰؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ اٰلِہَةً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا)

''یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھاہے، یہ ان پر واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔''


ہماری قوم نے کئی الٰہ بنا لیے۔ الوہیت (حاجت روائی و مشکل کشائی )کے لیے انھوں نے اللہ کو دور جانا اور غیر اللہ کو قریب، اس لیے کسی کو بارش اورکسی کو جنگ کا الٰہ بنا لیا۔ان کی الو ہیت پریہ کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ؟اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا قوم کو صاف صاف بتا دیا کہ تم شرک کے راستے پر ہو، یہی قوم کی خیر خواہی ہے۔ شرک کرنے والوں سے فنڈ اور ووٹ لے کر جنت کی بشارت دینا، انہیں عالم دین ہو نے کا تأثر دینا، ان کی جماعتوں کو اسلامی جماعتیں باور کروانا اوراُن کی جدو جہد کو اسلام کی خدمت کہنا درحقیقت جہاں اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے وہاں اُن کے ساتھ بھی بدخواہی کرنا ہے۔اگر مشرک کو یہ صاف صاف بتلا دیا جائے کہ تو اگر اسی حال میں مر گیا تو جہنم میں جائے گا، نہ تیرا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور نہ تجھے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، نہ تجھ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کرنا درست ہے اور نہ تیرے پیچھے نماز ادا کرناتو شاید وہ فکر کرے اور شرک سے توبہ کرلے۔اسی لیے ان اللہ والوں نے اپنی قوم کو صاف صاف کہہ دیا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو کہ اُس کے کئی شریک ہیں۔


(وَاِذِاعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہَ فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحّمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)

''اور اب جب تم نے اپنی قوم اور اور ان معبودوں سے جن کی یہ عبادت کرتے ہیں کنارہ کر لیا ہے تو آئو اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملے میں آسانی کر دے گا۔''


(وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہ)

یہاں اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ سے پہلے اُن کے پجاریوں سے کنارہ کشی کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ بت تو کوئی قوت نہیں رکھتے۔ معاشرے کی اصل قوت تو مشرکین ہیں جن سے دشمنی مول لینا مشکل ہوا کرتا ہے۔


معلوم ہوا کہ جس کے اندر صحیح معنوں میں ایمان داخل ہوگیاپھر وہ شرک برداشت نہیںکر سکتا۔ جب حالت یہ ہوکہ نظر آرہا ہو کہ میں اتنا کمزور ہوں کہ اگر میں یہاں رہا تو ایک نہ ایک دن یہ ظالم مجھ سے شرک کروا کر چھوڑیں گے ، تب ہجرت کرنا اور قوم سے علیحدہ ہونا واجب ہے۔ایسا نہ کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کتنے ہی نیک لوگوں نے کہا کہ اگر طاغوت کوئی نیک کام کرواتا ہے تو کر لینے میں کیا حرج ہے ؟ طاغوت طاقتور تھا اور یہ کمزور تھے۔ یہ ا س کے چنگل میں آگئے اب اتنا مجبور ہوئے کہ انھیں ان لوگوں کو اسلامی رہنما کہنا پڑا جو اسلام کے اندر ایک دھبہ ہیں، جو شرک کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، جو قرآن و سنت سمجھنے کے باوجود شرک کی وکا لت کرتے ہیں، وہ لوگ جو صحابہf کو گالی نکالتے ہیں اور قرآن کو بدلی ہوئی کتاب کہتے ہیں۔ توحید کے دعویداروں کو انھیں اپنا بھائی کہنا پڑا۔ یقینا اصحاب کہف بصیرت والے تھے جنہوں نے کہا تھا :

(اِنَّہُمْ اِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ اَوْ یُعِیْدُوکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَن تُفْلِحُوا اِذًا اَبَدًا)

''اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں رجم کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے اس صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔''


اس لیے طواغیت اورمشرکوں سے محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کے بارے میں کہنا کہ وہ توحید کے زبردست داعی ہیں فہم توحید سے جہالت کی دلیل ہے۔یا د رکھیے کوئی توحید بیان کرتا ہو اور طواغیت اور ان کے اولیاء اس کی عزت بھی کرتے ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ یا تو یہ تحریک اور شخص توحید بیان نہیں کرتا یا پھر جو اس کی عزت کرتے ہیں وہ سارے موحد ہو چکے ہیں۔ اور اگر ایسا ہے پھر تو مسئلہ حل ہو گیا یعنی اسلام آگیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی توحید پر قائم رہنے اوراس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی پرہمارا خاتمہ فرمائے۔


( فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحْمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)

''آؤ اس غار میں پنا ہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی کر دے گا۔''


اللہ کی رحمتیں، ملکوں کا دفاع، معیشت میں ترقی، امن و سکون، خوشحالی اور خوشیاں صرف ایک اللہ پر ایمان لانے میں مضمر ہیں۔جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔اس ملک اور اس کی عوام کے حقیقی محسن اورنجات دہندہ وہی لوگ ہیں جو انہیں ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔اس کے سوا تمام راستے ہلاکت و بربادی کے ہیں۔جب بھی ہمیں دنیا کی چکا چوند، مایوسی اور دشمن کے ہجوم کے غم نے گھیرا ہو تو یہ دعا کرنی چاہیے پس ہما رے لیے رحمت الٰہی کے دروازے کھل جائیں گے۔


(رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا)

''اے ہمارے رب !اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔(آمین)


۱ بخاری :٣٦١٤، مسلم:٧٩٥.

۲ (مسند احمد ) جبکہ مسلم کی روایت میں آخری دس آیات کا ذکر ہے۔ (مسلم:٨٠٩)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں