سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام



سیرت النبی کریم ﷺ

عہدِ نبوی ﷺ کا شہری نظام:


مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔

اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا، تاہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا، کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں، عربوں میں نا صرف مرکزیت کا فقدان تھا، بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، وہ کسی ”غیر“ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی، جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے، اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یا خون“ کے بجائے ”اسلام یا دین“ معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیا لوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی۔

ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو نضیر و بنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے، ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے، لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہورہا تھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنادیں، حتی کہ بخاری اور ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاجِ شہر یاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سپرد ہوچکی تھی، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کا الگ راج تھا اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتا تھا، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فوری ضرورتیں تھیں:

۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔
۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزر بسر کا انتظام۔
۳- شہرکے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔
۴ - شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام۔
۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ۔

ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی، جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ “
(ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں: مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)

اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے:

۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا، تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔
۳- فتنہ وفساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔

اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا۔
 (محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: ڈاکٹر حمید اللہ )

اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں:

۱- امن و امان کا قیام۔
۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں۔
۳- روزگار، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں