سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ غیرمسلموں کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک و رویّہ





سیرت النبی کریم ﷺ 

غیرمسلموں کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک و رویّہ

یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:

یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ میں آباد تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ ہجرت فرما جانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب دار اور خاموش رہے، لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے، انہوں نے سرکارِ دو عالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی، خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا، آپ صلى الله عليه وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی اور جمود وتعصب کا پایاجانا تھا، دوسرے ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی سرشت تھی، لیکن قربان جائیے! رحمتِ عالم صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔

مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا، تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ روا داری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔

۱- تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انہیں حاصل تھے۔
۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔
۴- باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
۵- موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔
۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔
۷- مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو، مدد کی جائے گی۔
۸- یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔
۹- یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
۱۰- مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔
۱۱- بنی عوف کے یہودی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔
۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئےگا تو اس کا فیصلہ رسول الله کریں گے۔
۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کرےگا۔ (سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)

آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔

سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے، لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔

عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:

عیسائیوں کے ساتھ بھی سرور عالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی، مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا، انہوں نے سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مذہبی معاملات میں گفتگو کی، عیسائیوں کے ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ معاہدہ کی دفعات درج ذیل ہیں:

(۱) ان کی جان محفوظ رہے گی۔
( ۲) ان کی زمین، جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
(۳) ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی، مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
(۴) صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔
(۵) ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیا ۱۲جائے گا۔
(۶) ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔
(۷) اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔
(۸) ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔
(۹) ان کے معاملات اور مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا۔
(۱۰) ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔
(۱۱) سود خوری کی اجازت نہ ہوگی۔
(۱۲) کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔
(۱۳) اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح البلدان بلاذری)

مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں، ان سے زیادہ حقوق تو کوئی اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔

جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں، اس کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول کی پناہ میں ہیں، اسی لیے ان کو ذمی کہا جاتا ہے، اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں، ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)

منافقین کے ساتھ حسن سلوک:

مدینہ منورہ میں ایک طبقہ ان مفاد پرستوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو زبان سے ایمان لے آیا تھا مگر دل ایمان ویقین سے یکسر خالی تھے، یہ لوگ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تھے، مسلمانوں کے تئیں سخت کینہ، بغض اور حسد رکھتے تھے، ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ مدینہ کا با اثر آدمی تھا اور سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے لوگ اس کو حکمراں بنانے کی تیاری کررہے تھے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی، اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا، منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام تر کوششیں کیں، نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے، ان سب شرارتوں اور عداوتوں کے باوجود سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا، عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے پڑھائی، ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔

تحریر : اشتیاق احمد قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد

==================> جاری ہے ۔۔۔

*ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں