تدبر سورہ الرحمٰن ۔۔۔ از استاد نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ 3

 


تدبر سورۃ الرحمن

از

نعمان علی خان

حصہ 3 (آیت 3)


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ


 خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ

اسی نے انسان کو پیدا کیا


سب سے پہلے اللہ نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں قرآن سیکھایا  

اور پھر کہا:

 خلق الانسان

 بے انتہا رحم اور محبت کرنے والے نے انسان کو بنایا 

یعنی ہمارا تخلیق کِیا جانا بھی اللہ کی محبت اور رحمت ہے .. 


جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اللہ نے انہیں کیوں بنایا ہے؟

یہ اللہ کی محبت کیسے ہو سکتی ہے؟

لیکن اللہ کہتا ہے کہ یہ واقعی اس کی محبت اور رحمت ہے کہ اس نے مجھے اور آپ کو زندگی دی

 

اس passage  کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ ؛ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ نے ہمیں تخلیق کیا اور پھر ہمیں قرآن سکھایا۔۔  بلکہ یہاں اللہ نے پہلے قرآن سکھانے کا ذکر کیا ہے اور پھر انسان کے تخلیق کرنے کا ۔ ۔ !


اس کا مطلب ہے کہ یہ زندگی اللہ کی رحمت اور محبت کا ثبوت ہے اور قرآن کا سکھانا ہماری زندگی سے بھی بڑا تحفہ ہے۔

ایسا کیوں ہے؟؟


مفتی محمد شفیع رحمہ نے اس آیت پر غور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؛

انسان اللہ کی ایک تخلیق ہے۔

ایک کاریگر جب کوئی مصنوعہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ایجاد کے مقصد پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ۔

 اور جب وہ ایجاد ہو جاتا ہے تو اس کاایک  Manual  ساتھ آتا ہے کہ وہ چیز کس طرح کام کرے گی ,اس کو کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟

اسانیت کا Manual اللہ تعالی کی وحی ہے۔


اگر کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہو اور ہمیں اس کو استعمال ہی نہ کرنا آتا ہوں پھر اس کا کیا فائدہ ہے؟

اسی طرح یہ زندگی اللہ تعالی کا بہترین تحفہ ہے ۔

لیکن "وحی" کے بغیر ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس زندگی کا کیا مقصد ہے؟

Our Life is Purpose less Without this Revelation.

اسی لیے یہاں قرآن کے سکھائے جانے کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور ہمارے تخلیق کرنے کا بعد میں، کیونکہ وہ ہماری تخلیق سے بھی بڑا ثبوت ہے اللہ کی رحمت کا ۔ ۔ ۔ !

خلق الانسان

 

لفظ انسان کے دو Origin ہیں ۔

1) اُنس

 2) نسیان 


اُنس؛ رحم /ہمدردی /محبت

ابن فارس کہتے ہیں کہ انسان "اُنس" سے نکلا ہے, 

جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک طرف محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف اس کو محبت اور ہمدردی کی ضرورت بھی ہوتی ہے  

جانوروں یا پرندوں میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا وہ اتنے ایموشنل نہیں ہوتے جتنا انسان ہوتا ہے ۔۔

جب انسان اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے بھی محبت کی جائے۔۔

اللہ نے انسانوں کو  ایک ذریعہ دیا ہے جس سے وہ اللہ کی باقی مخلوق سے محبت کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اصل محبت بھی پاسکتے ہیں۔۔

 وہ اللہ کی محبت پا سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کا اصل مقصد ڈھونڈ سکتے ہیں ۔۔


نسیان ؛" بھولنا " 

یعنی انسان بھولنے والی مخلوق ہے 

دوسرے لفظوں میں جب ہمیں تخلیق کیا گیا تھا، ہم اللہ کو جانتے تھے لیکن جب ہم زمین پر آئے تب ہم اللہ کو بھول گئے۔

جب کوئی بھولنے کا عادی ہوں تو اس کے لیے سب سے بہترین چیز کیا ہے؟؟

 یاد دہانی

یعنی سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ اس کو یاد کروایا جائے اور اللہ نے بار بار قرآن کو ذکر یا نصیحت کہا ہے .

قرآن انسانوں کو بار بار یاد کرواتا ہے کہ ان کا رب کون ہے ان کا اس دنیا میں کیا کام ہے اور آخرت کیا ہے 

جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ باتیں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور وہ اس لیے ہے کہ ہمیں یاد دہانی کروائی جائے ۔

اور بھولنے کا مطلب یہ نہیں ہے کی اپنا نام یا گھر بھول جانا بلکہ اپنے فرائض مقاصد اور ذمہ داریاں بھولنا ۔۔۔

کیا یہ ہمارے ساتھ روزانہ نہیں ہوتا ؟؟

جیسے آپ کا دو دن بعد پیپر ہو اور آپ فٹبال کھیل رہے ہوں۔ آپ کی امی کہیں تمہیں یاد نہیں ہے کہ پرسوں تمہارا پیپر ہے اور آپ کہیں "میں بھول گیا تھا"۔

جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا نہیں چاہتے تو ہم ان کو بھولنے لگ جاتے ہیں اسی طرح ہم تلخ حقیقتوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بھولنا چاہتے ہیں ہم ان کو سوچنا نہیں چاہتے ۔


اسی طرح جب اللہ آخرت کی بات کرتے ہیں تو ہم اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے 

ہمارے لئے موت، قبر، آخرت، میدان حشر، ان سب کے بارے میں سوچنا ہمیں ناگوار لگتا ہے۔ ۔ ۔  

اسی لیے ہمیں کچھ ایسا چاہیے جو ہمیں بار بار "یاد دہانی" کروائے۔


 اسی لیے اللہ نے ہمارے لیے قرآن پاک نازل کیا ہے کیونکہ وہ ہمیں آخرت کے بارے میں یاددہانی کرواتا ہے تاکہ ہم اس کے لیے پہلے سے تیاری کر لیں ۔ ۔ 


استاد نعمان علی خان

جاری ہے ۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں