پیغام قرآن : پارہ 15-11


۱۱ ۔۔۔ یعتذرون کے مضامین


۱۔ اللہ فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا

تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے۔ مگر تم صاف کہہ دینا کہ ’’بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتا دیئے ہیں ۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھے گا، پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھُپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔‘‘ تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شک تم ان سے صَرفِ نظر ہی کر لو، کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہو گی۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ۔ حالانکہ اگر تم اِن سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا۔(التوبۃ۔۔۔ ۹۶)

۲۔ اللہ کی قربت کے لیے خرچ کرنا

یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیا ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ان بدویوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں (کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلاوہ اتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کس دیا ہے)۔ حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسولﷺ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ ہاں ! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(التوبۃ۔۔۔ ۹۹)

۳۔جو نفاق میں طاق ہو گئے

وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی،نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ تمہارے گرد و پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اِسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں ۔ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ ( التوبۃ۔۔۔ ۱۰۱)

۴۔اپنے قصوروں کا اعتراف کرنے والے

کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے نبیﷺ ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں ) انہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو، کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہِ تسکین ہو گی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُن کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے(التوبۃ۔۔۔ ۱۰۴)

۵۔اللہ کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے

اور اے نبیﷺ ،ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولﷺ اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے، پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے،اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھیرا ہوا ہے، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے ان پر از سرِ نو مہربان ہو جائے۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔(التوبۃ۔۔۔ ۱۰۶)

۶۔خوفِ خدا اور اللہ کی رضا

کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ (دعوت حق کو) نقصان پہنچائیں ،اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے) کفر کریں ، اور اہل ایمان میں پھُوٹ ڈالیں ، اور (اس بظاہر عباد ت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اِس سے پہلے خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف برسرِ پیکار ہو چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا کسی دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں ۔ پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی (جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں ) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں ۔ اللہ نہایت باخبر اور حکیم و دانا ہے( التوبۃ:۱۱۰)

۷۔اللہ نے مومنوں کے مال و نفس خرید لیے

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے مرتے ہیں ۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں ۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے،اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں ) اور اے نبیﷺ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔ (التوبۃ۔۔۔ ۱۱۲)

۸۔مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو

نبیﷺ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ،زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔ ابراہیمؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے زار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیمؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بردبار آدمی تھا۔(التوبۃ۔۔۔ ۱۱۴)

۹۔زندگی و موت اللہ ہی کے اختیار میں ہے

اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کر دے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ درحقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضہ میں زمین اور آسمانوں کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے۔اللہ نے معاف کر دیا نبیﷺ کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبیﷺ کا ساتھ دیا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے، (مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبیﷺ کا ساتھ دیا تو) اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک اس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں ، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (التوبۃ۔۔۔ ۱۱۸)

۱۰۔ محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔ اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہو گا کہ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں ، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے اُس پر کوئی قدم وہ اٹھائیں ، اور کسی دشمن سے (عداوت حق کا) کوئی انتقام وہ لیں ،اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عملِ صالح نہ لکھا جائے ۔ یقیناً اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے۔اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہو گا کہ وہ (راہ خدا میں ) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ اٹھائیں اور (سعی جہاد میں ) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔(التوبۃ۔۔۔ ۱۲۱)

۱۱۔دین کی سمجھ کے حصول کے لیے نکلنا

اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔( التوبۃ:۱۲۲)

۱۲۔اللہ متقیوں کے ساتھ ہے

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں ۔ اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں ، اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ جب کوئی نئی سُورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ ’’کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟‘‘ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں ، البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا ان کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں مبتلا رہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے،پھر چپکے سے نکل بھاگتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیئے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں ۔(التوبۃ۔۔۔ ۱۲۷)

۱۳۔رسولِ خدا ہماری فلاح چاہتے ہیں

دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیﷺ ، ان سے کہہ دو کہ ’’میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا‘‘۔ ( التوبۃ۔۔۔ ۱۲۹)


سورۂ یونس

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۴۔ آسمانوں اور زمین کی چھ دنوں میں تخلیق

ا ل ر، یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ (اس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھُلا جادوگر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہو کر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے الّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو۔ پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ (یونس۔۔۔ ۳)

۱۵۔اللہ ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا

اُسی کی طرف سے تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو انصاف کے ساتھ جزا دے،اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے (یونس:۴)

۱۶۔سورج کو روشنی اور چاند کو چمک دی گئی

وہی ہے جس نے سورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ برحق ہی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۔ یقیناً رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں ۔(یونس۔۔۔ ۶)

۱۷۔دنیا کی زندگی پر مطمئن رہنے والے لوگ

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہو گا ان برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے۔(یونس۔۔۔ ۸)

۱۸۔نیک لوگوں کے لیے نعمت بھری جنت

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں ) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی، وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تو اے خدا‘‘، ان کی دعا یہ ہو گی کہ ’’سلامتی ہو‘‘ اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ رب العٰلمین ہی کے لیے ہے‘‘۔ (یونس۔۔۔ ۱۰)

۱۹۔اللہ سرکش لوگوں کو چھوٹ دیتا ہے

اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اُتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مُہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں ۔انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیئے گئے ہیں ۔ لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور ان کے رسول اُن بپاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا۔ اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ اب اُن کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔(یونس۔۔۔ ۱۴)

۲۰۔اللہ کی آیات کو جھُوٹا کہنے والے

جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ’’اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں ۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے‘‘۔ اور کہو ’’اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے‘‘۔(یونس۔۔۔ ۱۷)

۲۱۔ مختلف عقیدے اور مسلک بعد میں بنے

یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں ‘‘؟ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اُس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس نبیﷺ پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی، تو ان سے کہو ’’غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ‘‘۔(یونس۔۔۔ ۲۰)

۲۲۔دنیا کی زندگی کے مزے چند روزہ ہیں

لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم اُن کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چالبازیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ان سے کہو ’’اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اُس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں ‘‘۔ وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ’’اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکرگزار بندے بنیں گے‘‘۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ (یونس۔۔۔ ۲۳)

۲۴۔مشرکین ،ان کے معبود اور قیامت

جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔ ان کے چہروں پر رو سیاہی اور ذلت نہ چھائے گی۔ وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں اُن کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلت ان پر مسلط ہو گی، کوئی اللہ سے اُن کو بچانے والا نہ ہو گا، اُن کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں ، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں ) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم اُن کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ ’’تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے‘‘۔ اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیئے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گُم ہو جائیں گے۔(یونس۔۔۔ ۳۰)

۲۵۔ سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک

ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟ تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟ (اے نبیﷺ دیکھو)اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔ (یونس۔۔۔ ۳۳)

۲۶۔تخلیق کی ابتدا اور پھر اس کا اعادہ

ان سے پوچھو، تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس الٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو؟ان سے پوچھو تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔پھر بھلا بتاؤ، جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسے الٹے الٹے فیصلے کرتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں ،حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔(یونس۔۔۔ ۳۶)

۲۷۔قرآن پیغمبرﷺ کی تصنیف نہیں

اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟’’ اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو‘‘۔اصل یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مال بھی ان کے سامنے نہیں آیا، اس کو انہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچّو) جھُٹلا دیا۔ اسی طرح تو اس سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں ، پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا رب ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔(یونس۔۔۔ ۴۰)

۲۸۔ہر ایک کا عمل اسی کے لیے ہے

اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ ’’میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں ‘‘۔ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں ، مگر کیا تو بہروں کو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں ؟ ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں ، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ اُنہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔ (آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں ) اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہو گی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے۔ (اس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ راہ راست پر نہ تھے۔جن بُرے نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں اُن کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھا دیں یا اُس سے پہلے ہی تجھے اٹھا لیں ، بہرحال انہیں آنا ہماری طرف ہی ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔(یونس۔۔۔ ۴۶)

۲۹۔ہر اُمت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے

ہر اُمت کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب کسی اُمت کے پاس اُس کا رسول آ جاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پُوری ہو گی؟ کہو ’’میرے اختیار میں تو خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں ، سب کچھ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ ہر اُمت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے، جب یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی‘‘ ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے(تو تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کو ن سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں ؟ کیا جب وہ تم پر آ پڑے اسی وقت تم اسے مانو گے؟۔۔۔ اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے! پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کا مزا چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے؟ پھر پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو ’’میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے، اور تم اتنا بل بُوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو‘‘۔ (یونس۔۔۔ ۵۳)

۳۰۔ظالم عذاب دیکھ کر پچھتائیں گے

اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، روئے زمین کی دولت بھی ہو تو اس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اُسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ اُس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے۔ مگر ان کے درمیان پورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، کوئی ظلم ان پر نہ ہو گا۔ سنو! آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ کا ہے۔ سُن رکھو! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں ۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔(یونس۔۔۔ ۵۶)

۳۱۔ دلوں کے امراض کی شفا کس چیز میں ہے

لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیﷺ ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا‘‘! ان سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟ جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افتراء باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہو گا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔ (یونس۔۔۔ ۶۰)

۳۲۔اللہ کے دفتر میں سب کچھ درج ہے

اے نبیﷺ ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اُس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں ۔ کوئی ذرّہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے،نہ چھوٹی نہ بڑی،جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔ سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں ،جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اُن کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں ۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبیﷺ ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں ، عزت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (یونس۔۔۔ ۶۵)

۳۳۔اللہ نے رات کو آرام کے لیے بنایا

آگا ہ رہو!آسمانوں کے بسنے والے ہو یا زمین کے سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں ۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خود ساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (کھُلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں ۔(یونس۔۔۔ ۶۷)

۳۴۔اللہ پر جھوٹے افتراء باندھنے والے

لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔سبحان اللہ!وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی مِلک ہے۔ تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں ؟ اے نبیﷺ ،کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتراء باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں ، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے، پھر ہم اس کفر کے بدلے جس کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔(یونس۔۔۔ ۷۰)

۳۵۔ نوحؑ کی کشتی میں سوار لوگ بچا لیے گئے

ان کو نوحؑ کا قصہ سناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اُس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اُس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا (تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ‘‘۔۔۔ انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوں نے مان کر نہ دیا) ان کا کیا انجام ہوا۔پھر نوحؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں ۔ ( یونس۔۔۔ ۷۴)

۳۶۔ جادوگر فلاح نہیں پایا کرتے

پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔ پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔موسیٰؑ نے کہا ’’تم حق کو یہ کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے سامنے آ گیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر فلاح نہیں پایا کرتے‘‘۔ انہوں نے جواب میں کہا ’’کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں ‘‘۔ اور فرعون نے (اپنے آدمیوں سے) کہا کہ ’’ہر ماہر فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو‘‘۔۔۔۔ جب جادوگر آ گئے تو موسیٰؑ نے ان سے کہا ’’جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو‘‘۔پھر جب انہوں نے اپنے آنچھر پھینک دیئے تو موسیٰؑ نے کہا ’’یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے، اللہ ابھی اسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سدھرنے نہیں دیتا، اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔(یونس۔۔۔ ۸۲)

۳۷۔قومِ موسیٰؑ کا مصر میں قیام

(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں ۔موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے‘‘۔اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ ’’مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو‘‘۔( یونس۔۔۔ ۸۷)

۳۸۔فرعون کے خلاف موسیٰؑ کی دعا کی قبولیت

موسیٰؑ نے دعا کی ’’اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اُس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔ اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں ؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ’’تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔(یونس۔۔۔ ۸۹)

۳۹۔ فرعون کی لاش برائے عبرت محفوظ کی گئی

اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اُس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے اُن کے پیچھے چلے۔حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ’’میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں ‘‘۔ (جواب دیا گیا) ’’اب ایمان لاتا ہے! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ‘‘۔ (یونس۔۔۔ ۹۲)

۴۰۔بنی اسرائیل کو عمدہ وسائلِ زندگی ملی

ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائلِ زندگی کی انہیں عطا کیے۔ پھر انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جبکہ علم ان کے پاس آ چکا تھا۔ یقیناً تیرا رب قیامت کے رو ز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔ اب اگر تجھے اس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں ۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے، لہٰذا تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو، اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے، ورنہ تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔(یونس۔۔۔ ۹۵)

۴۱۔جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آ گیا ہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے وہ کبھی ایمان لا کر نہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں ۔پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں )۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں ) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں ؟ کوئی متنفس اللہ کے اِذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ اُن پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ (یونس۔۔۔ ۱۰۰)

۴۲۔جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے

ان سے کہو ’’زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں ؟اب یہ لوگ اس کے سوا اور کسی چیز کے منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں ؟ ان سے کہو ’’اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ‘‘۔ پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو) ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں ۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچا لیں ۔( یونس۔۔۔ ۱۰۳)

۴۳۔مصیبت و فضل سب مِن جانب اللہ ہے

اے نبیﷺ ، کہہ دو کہ ’’لوگو، اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سُن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اُسی خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں ۔ اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اس دین پر قائم کر دے، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے،اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔(یونس۔۔۔ ۱۰۷)

۴۴۔اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے

اے محمدﷺ ،کہہ دو کہ ’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے۔اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے،اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اُسی کے لیے تباہ کن ہے۔اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں ‘‘۔ اور اے نبیﷺ ، تم اُس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے،اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس۔۔۔ ۱۰۹)

سورۂ ہود

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے ولا ہے

۴۵۔اللہ سینوں میں چھپے بھید بھی جانتا ہے

ا ل ر۔ فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں ، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اُس کا فضل عطا کرے گا۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ دیکھو، یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں ۔خبردار، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی،وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں ۔(ہود۔۔۔ ۵)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۲۔۔۔ ومآ من دآبۃٍ کے مضامین

۱۔ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے

زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے، اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۔۔۔ جبکہ اس سے پہلے اُس کا عرش پانی پر تھا۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔اب اگر اے نبیﷺ ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اس سزا کا وقت آ گیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں ۔( ہود۔۔۔ ۸)

۲۔اللہ کی رحمت سے محرومی پر ناشکری نیکی نہیں

اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اُس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔(ہود۔۔۔ ۱۱)

۳۔قرآن جیسی سورتیں کوئی نہیں بنا سکتا

تو اے پیغمبرﷺ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے ’’اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا؟‘‘ یا یہ کہ ’’اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا؟‘‘، تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، ’’اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم (اُنہیں معبود سمجھنے میں )سچے ہو۔ اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کرتے ہو؟‘‘ (ہود۔۔۔ ۱۴)

۴۔طالبِ دنیا کو صرف دنیا ملتی ہے آخرت نہیں

جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔(ہود۔۔۔ ۱۶)

۵۔ اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے

پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اُس شہادت کی تائید میں ) آ گیا، اور پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبرﷺ ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا۔(ہود۔۔۔ ۱۸)

۶۔ اندھا، بہرا اور دیکھنے ،سُننے والا برابر نہیں

سنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر ۔۔۔ اُن ظالموں پر جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں ،اُس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں ، اور آخرت سے انکار کرتے ہیں ۔۔۔ وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا۔ انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ ان سے کھویا گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا۔ ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں ۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا، بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم (اس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟ (ہود۔۔۔ ۲۴)

۷۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا، نوحؑ

(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) ’’میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا‘‘۔ جواب میں اس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے ’’ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذِل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے۔ اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ‘‘۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھے کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں ؟ اور اے برادرانِ قوم، میں اس کام میں تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ اور اے قوم، اگر میں ان لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟ اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں ۔ا ور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا‘‘۔(ہود۔۔۔ ۳۱)

آخرکار اُن لوگوں نے کہا کہ ’’اے نوحؑ،تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو‘‘۔ نوحؑ نے جواب دیا ’’وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے‘‘۔اے نبیﷺ ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو ’’اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں ‘‘۔ (ہود۔۔۔ ۳۵)

۸۔نوحؑ کو کشتی بنانے کا حکم

نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے، بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں ۔ نوحؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں ، عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پروہ عذاب آتا ہے جو اُسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی‘‘۔(ہود۔۔۔ ۳۹)

۹۔نوحؑ کی کشتی میں ہر قسم کے جانور رکھے گئے

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ’’ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی ۔۔۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔۔۔ اس میں سوار کرا دو اور اُن لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ‘‘۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوح نے کہا ’’سوار ہو جاؤ اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔(ہود۔۔۔ ۴۱)

۱۰۔ نوحؑ کا بیٹا کشتی میں سوار نہیں ہوا

کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوحؑ نے پکار کر کہا ’’بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ‘‘۔ اس نے پلٹ کر جواب دیا ’’میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا‘‘۔ نوح نے کہا ’’آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے‘‘۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔(ہود۔۔۔ ۴۳)

۱۱۔بیٹے کے لیے نوحؑ کی دعا رَد ہو گئی

حکم ہوا ’’اے زمین، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رُک جا‘‘۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جُودی پر ٹِک گئی،اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا ’’اے رب، میرا بیٹا گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے‘‘۔ جواب میں ارشاد ہوا ’’اے نوحؑ ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے‘‘۔ نوحؑ نے فوراً عرض کیا ’’اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں ۔اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا‘‘۔(ہود۔۔۔ ۴۷)

حکم ہوا ’’اے نوحؑ اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور اُن گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ،اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا‘‘۔اے نبیﷺ ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں ۔اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔(ہود۔۔۔ ۴۹)

۱۲۔ اللہ نے عاد کی طرف ہودؑ کو بھیجا

اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں ۔ اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اُس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اُس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو‘‘۔انہوں نے جواب دیا ’’اے ہودؑ، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے،اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے‘‘۔(ہود۔۔۔ ۵۴)

۱۳۔ ہر جاندار اللہ کے کنٹرول میں ہے،ہودؑ

ہودؑ نے کہا ’’میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں ۔اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں ۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں ۔ اب میرا رب تمہاری جگہ دوسری قوم کو اٹھائے گا اور تم اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگراں ہے‘‘۔ (ہود۔۔۔ ۵۷)

۱۴۔ قومِ عاد دور پھینک دئیے گئے

پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہودؑ کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔۔۔ یہ ہیں عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی اور ہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرکار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔سنو! دور پھینک دیئے گئے عاد، ہودؑ کی قوم کے لوگ۔ (ہود۔۔۔ ۶۰)

۱۵۔اللہ نے قومِ ثمود کی طرف صالحؑ کو بھیجا

اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’اے صالحؑ ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں ۔کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ تو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے‘‘۔(ہود۔۔۔ ۶۲)

۱۶۔ اہلِ ثمود نے اللہ کی اونٹنی کو مار ڈالا

صالحؑ نے کہا ’’اے میرے برادرانِ قوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اُس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آ سکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔ اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین میں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اس سے ذرا تعرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس پر صالحؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ ’’بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی میعاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہو گی‘‘۔(ہود۔۔۔ ۶۵)

۱۷۔کفر کے حامل اہلِ ثمود دور پھینک دئیے گئے

آخرکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالحؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا۔ بے شک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے اُن کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔سُنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سُنو! دور پھینک دیئے گئے ثمود!(ہود۔۔۔ ۶۸)

۱۸۔ ابراہیمؑ کو اسحاقؑ و یعقوبؑ کی خوشخبری

اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے۔ کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلامتی ہو۔پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ انہوں نے کہا ’’ڈرو نہیں ، ہم تو لوطؑ کی قوم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ، ابراہیمؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس دی۔ پھر ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوبؑ کی خوشخبری دی۔ وہ بولی ’’ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہو گی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہو گئی اور میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘۔ فرشتوں نے کہا ’’اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے‘‘۔ (ہود۔۔۔ ۷۳)

۱۹۔قومِ لوطؑ پر عذاب،ابراہیمؑ کی سفارش رَد

پھر جب ابراہیمؑ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہو گیا تو اُس نے قومِ لوطؑ کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔ (آخرکار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ’’اے ابراہیمؑ ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آ کر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا‘‘۔(ہود۔۔۔ ۷۶)

۲۰۔فرشتوں کا لوطؑ کے گھر مہمان بن کر آنا

اور جب ہمارے فرشتے لوطؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ (ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے۔ لوطؑ نے ان سے کہا ’’بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں ۔ کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں ‘‘۔ لوطؑ نے کہا ’’کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کر دیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا‘‘۔ (ہود۔۔۔ ۸۰)

۲۱۔قومِ لوطؑ پر پتھروں کی بارش کا عذاب

تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ ’’اے لوطؑ ، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا۔ اور دیکھو تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ مگر تیری بیوی (ساتھ نہیں جائے گی)کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو ان لوگوں پر گزرنا ہے۔ ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے ۔۔۔ صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے‘‘! پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ۔ (ہود۔۔۔ ۸۳)

۲۲۔اللہ نے اہلِ مدین کی طرف شعیبؑ کو بھیجا

اور مدین والوں کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں ۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ اور اے برادرانِ قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں ‘‘۔(ہود۔۔۔ ۸۶)

۲۳۔ شعیبؑ کی نصیحت، قوم کی ہٹ دھرمی

انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیبؑ ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے بابا دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے‘‘! شعیبؑ نے کہا ’’بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہو سکتا ہوں ؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں ۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رُجوع کرتا ہوں ۔ اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخرکار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا۔ اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔دیکھو! اپنے رب سے معافی مانگو اور اُس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے‘‘۔(ہود۔۔۔ ۹۰)

۲۴۔ مدین کی بستیاں سخت دھماکے سے تباہ

انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیبؑ ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں ، اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو‘‘۔شعیبؑ نے کہا ’’بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور ) اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا ، جلدی ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں ‘‘۔آخرکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیبؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔سنو! مدین والے بھی دور پھینک دیئے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔(ہود۔۔۔ ۹۵)

۲۵۔فرعون اور اس کے پیروکار دوزخی ہیں

اور موسیٰؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی سندِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔ کیسی بدتر جائے ورُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! اور اُن لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا بُرا صلہ ہے یہ جو کسی کو ملے!( ہود۔۔۔ ۹۹)

۲۶۔ظالم بستیوں پر اللہ کی پکڑ سخت ہوتی ہے

یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۔ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آ گیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا اُنہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔ (ہود۔۔۔ ۱۰۳)

۲۷۔قیامت کے آنے میں دیر نہیں

وہ ایک دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں ، بس ایک گنی چُنی مدت اُس کے لیے مقرر ہے۔جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہو گی،الاّ یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ پھر کچھ لوگ اس روز بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے (جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے) وہ ہانپیں گے اور پھُنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں ، الاّ یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ، الاّ یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ پس اے نبیﷺ ، تو اُن معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں ۔ یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، اور ہم ان کا حصہ انہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔(ھود:۱۰۹)

۲۸۔نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں

ہم اس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا (جس طرح آج اس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے)۔ اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اُن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے نبیﷺ ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ،یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں ۔ اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ (ہود۔۔۔ ۱۱۵)

۲۹۔اللہ جہنم کو نا فرمان جن و انس سے بھر دے گا

پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم ، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیئے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔(ہود۔۔۔ ۱۱۹)

۳۰۔ پیغمبروں کے قصے، نصیحت کے لیے ہیں

اور اے نبیﷺ یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سناتے ہیں ، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں ۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں ، انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں ۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ پس اے نبیﷺ ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا رب اس سے بے خبر نہیں ہے(ھود:۱۲۳)


سورۂ یوسفؑ 

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۳۱۔قرآن میں واقعات و حقائق کا بیان ہے

ا َ، لَ، رَ۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔ اے نبیﷺ ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں ، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ ( یوسف۔۔۔ ۳)

۳۲۔خوابِ یوسفؑ :چاند ستاروں کا سجدہ کرنا

یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں ‘‘۔ جواب میں اس کے باپ نے کہا، ’’بیٹا اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔ اور ایسا ہی ہو گا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آلِ یعقوبؑ پر اپنی نعمت اُسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ابراہیمؑ، اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے‘‘۔( یوسف۔۔۔ ۶)

۳۳۔ یوسفؑ کے خلاف بھائیوں کی سازش

حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اُس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ’’یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں ، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں ۔چلو یُوسف کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا‘‘۔ اس پر ان میں سے ایک بولا ’’یوسفؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا‘‘۔ اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں ؟ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے، کچھ چر چُگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں ‘‘۔باپ نے کہا، ’’تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں ، تب تو ہم بڑے ہی نکمے ہوں گے‘‘ ۔( یوسف۔۔۔ ۱۴)

۳۴۔ یوسفؑ کو کنویں میں پھینک کر واویلا مچانا

اس طرح اصرار کر کے جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں ، تو ہم نے یوسفؑ کو وحی کی کہ ’’ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں ‘‘۔ شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا، ’’ابا جان ، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسفؑ کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں ‘‘۔ اور وہ یوسفؑ کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ یہ سُن کر ان کے باپ نے کہا ’’بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی صبر کروں گا،جو بات تم بتا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے‘‘۔(یوسف۔۔۔ ۱۸)

۳۵۔ یوسفؑ کا بِکا جانا

اُدھر ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔سقے نے جو کنوئیں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اٹھا ’’مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے‘‘۔ ان لوگوں نے اُس کو مال تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا۔ آخرکار انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض اُسے بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔( یوسف۔۔۔ ۲۰)

۳۶۔ یوسفؑ کی عزیزِ مصر کے گھر پرورش

مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا ’’اس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ‘‘۔ اس طرح ہم نے یوسفؑ کے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا، اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں ۔ ( یوسف۔۔۔ ۲۲)

۳۷۔دامنِ یوسفؑ تار تار کرنے کی سازش

جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ’’آ جا‘‘۔ یوسفؑ ؑ نے کہا، ’’خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں !) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے‘‘۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسفؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں ، درحقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آخرکار یوسفؑ اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، ’’کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے؟‘‘یوسفؑ نے کہا ’’یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی‘‘۔ اُس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی)شہادت پیش کی کہ ’’اگر یوسفؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا، اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا‘‘۔ جب شوہر نے دیکھا کہ یوسفؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا ’’یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں ، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں ۔ یوسفؑ اس معاملے سے درگزر کر۔ اور اے عورت، تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۲۹)

۳۸۔حسنِ یوسفؑ ، عورتوں کا ہاتھ کاٹ لینا

شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے‘‘۔ اس نے جو ان کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی، (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں ) اُس نے یوسفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب اُن عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں ’’حاشا وللہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے‘‘۔ عزیز کی بیوی نے کہا ’’دیکھ لیا، یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں ۔ بے شک میں نے اسے رِجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا،اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا‘‘۔ یوسفؑ نے کہا ’’اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں ۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تومیں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا‘‘۔ اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں ۔ بے شک وہی ہے جو سب کی سُنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔پھر اُن لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مدت کے لیے اُسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاک دامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے (یوسف۳۵)

۳۹۔ قیدی یوسفؑ کا خواب کی تعبیر بتلانا

قید خانے میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک روز ان میں سے ایک نے کہا ’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں ‘‘۔ دوسرے نے کہا ’’میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں ‘‘۔دونوں نے کہا ’’ہمیں اس کی تعبیر بتایئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں ‘‘۔یوسفؑ نے کہا ’’یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں ۔( یوسف۔۔۔ ۳۷)

۴۰۔ زنداں میں یوسفؑ کی وعظ و نصیحت

واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں ، اپنے بزرگوں ،ابراہیمؑ ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں ۔درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پراور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں ، اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرمانروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔فیصلہ ہو گیا اس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے‘‘۔پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اُس سے یوسفؑ نے کہا ’’اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا‘‘۔ مگر شیطان نے اُسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسفؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا۔ ( یوسف۔۔۔ ۴۲)

۴۱۔ یوسفؑ کا بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتلانا

ایک روز بادشاہ نے کہا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں ، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے‘‘۔اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اسے ایک مدتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی،اس نے کہا ’’میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں ، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجئے‘‘۔( یوسف۔۔۔ ۴۵) اُس نے جا کر کہا ’’یوسفؑ ، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی ، شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں ‘‘۔ یوسفؑ نے کہا سات برس تک لگاتار تم کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ،جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے‘‘۔( یوسف۔۔۔ ۴۹)

۴۲۔عورتوں کا کردارِ یوسفؑ کی گواہی دینا

بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسفؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ’’اپنے رب کے پاس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے‘‘۔ اس پر بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا ’’تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسفؑ کو رجھانے کی کوشش کی تھی؟‘‘سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’حاشا وللہ، ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا‘‘۔عزیز کی بیوی بول اٹھی ’’اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھُسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے‘‘۔(یوسفؑ نے کہا) ’’اس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اُس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ ( یوسف۔۔۔ ۵۲)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۳۔۔۔ ومآابرّیٔ کے مضامین


۱۔بادشاہ کا یوسفؑ پر بھروسہ کرنا

میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کر رہا ہوں ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الاّ یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’انہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں ‘‘۔جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے‘‘۔ یوسفؑ نے کہا، ’’ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ‘‘( یوسف۔۔۔ ۵۵) اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں ،نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ( یوسف۔۔۔ ۵۷)

۲۔ یوسفؑ کے بھائی مصر آئے

یوسفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو چلتے وقت ان سے کہا ’’اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں ۔ اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں ، اور ہم ایسا ضرور کریں گے‘‘۔ یوسفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ’’ان لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو‘‘۔ یہ یوسفؑ نے اس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں (یوسف۶۲)

۳۔زیادہ غلہ کے لیے یوسفؑ کی شرط

جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’’ابا جان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں ۔اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ‘‘۔ باپ نے جواب دیا ’’کیا میں اس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ کر چکا ہوں ؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی انہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے۔ ’’ابا جان، اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رسد لے کر آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا‘‘۔ ان کے باپ نے کہا ’’میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے الاّ یہ کہ تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘۔ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیئے تو اس نے کہا ’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے‘‘۔ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدابیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آ سکی۔ ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بیشک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں ۔( یوسف۔۔۔ ۶۸)

۴۔ اپنے سگے بھائی کو پکڑوانے کی ترکیب

یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ ’’میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا) اب تو ان باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں ‘‘۔جب یوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا ’’اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو‘‘۔ انہوں نے پلٹ کر پوچھا ’’تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟‘‘ سرکاری ملازموں نے کہا ’’بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا‘‘۔ (اور اُن کے جمعدار نے کہا) ’’جو شخص لا کر دے گا اس کے لیے ایک بار شتر انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں ‘‘ ان بھائیوں نے کہا ’’خدا کی قسم ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں ‘‘انہوں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’اس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔ تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی۔۔۔ اس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الاّ یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں ، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے۔(یوسف۔۔۔ ۷۶)

ان بھائیوں نے کہا ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسفؑ ) بھی چوری کر چکا ہے‘‘۔یوسفؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیر لب) اتنا کہہ کر رہ گیا کہ ’’بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خُدا خوب جانتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے سردارِ ذی اقتدار (عزیز)اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ‘‘۔یوسفؑ نے کہا ’’پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں ؟جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۷۹)

۵۔ برادرانِ یوسفؑ کی پریشانی

جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ’’تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں ؟ اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں ، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ ابا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے۔ ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں ، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جہاں ہم تھے۔ اُس قافلے سے دریافت کیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں ‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۸۲)

۶۔ بیٹوں کے غم میں یعقوبؑ کی افسردگی

باپ نے یہ داستان سن کر کہا ’’دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا۔ اچھا اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے،وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں ‘‘۔ پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ’’ہائے یوسفؑ !‘‘۔۔۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھُٹا جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں ۔۔۔ بیٹوں نے کہا ’’خدارا! آپ تو بس یوسفؑ ہی کو یاد کیے جاتے ہیں ۔نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے‘‘۔ اُس نے کہا ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۸۷)

۷۔یوسفؑ کا بھائیوں کو اپنی حقیقت بتلانا

جب یہ لوگ مصر جا کر یوسفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ ’’اے سردارِ با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں ، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں ، اللہ خیرات دینے والوں کو جزا دیتا ہے‘‘۔ (یہ سن کر یوسفؑ سے نہ رہا گیا) اس نے کہا ’’تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اور ا س کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے؟‘‘وہ چونک کر بولے، ’’ہائیں ! کیا تم یوسفؑ ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’ہاں ، میں یوسفؑ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے‘‘۔ اُس نے جواب دیا، ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جاؤ ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، ان کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ‘‘۔ (یوسف۔۔۔ ۹۳)

۸۔ یعقوبؑ کی بینائی لوٹ آئی

جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں ) کہا ’’میں یوسفؑ کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں ‘‘۔ گھر کے لوگ بولے ’’خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اُسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ’’میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ سب بول اٹھے ’’ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں ، واقعی ہم خطاکار تھے‘‘۔ اس نے کہا، ’’میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۹۸)

۹۔ بھائیوں کا یوسفؑ کے آگے سجدہ ریز ہونا

پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے توا س نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کُنبے والوں سے) کہا ’’چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے‘‘۔ (شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھُک گئے۔ یوسفؑ نے کہا، ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اُس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا، حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔ ( یوسف۔۔۔ ۱۰۱) اے نبیﷺ ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں ۔ حالانکہ تم اس خدمت پران سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ ( یوسف۔۔۔ ۱۰۴)

۱۰۔زمین اور آسمانوں میں اللہ کی نشانیاں

زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں ۔ کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟ تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ‘‘۔(یوسف۔۔۔ ۱۰۸)

۱۱۔ سارے پیغمبرؑ انسان ہی تھے

اے نبیﷺ ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ؟ یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟ (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ ( یوسف۔۔۔ ۱۱۱)


سورۂ رعد

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔

۱۲۔ آفتاب و ماہتاب ایک قانون کا پابند ہیں

اَ۔لَ۔مَ۔رَ۔ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں ، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ (الرعد۔۔۔ ۲)

۱۳۔پہاڑ زمین کے کھونٹے ہیں

اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیئے ہیں ۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ۔ (الرعد۔۔۔ ۳)

۱۴۔ایک ہی پانی سے الگ الگ مزے

اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں ۔ انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ ا کہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے، مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔( الرعد۔۔۔ ۴)

اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔یہ لوگ بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرتناک مثالیں گزر چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ ’’اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟‘‘ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے (الرعد۔۔۔ ۷)

۱۵۔ اللہ حمل کی تفصیلات تک سے واقف ہے

اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ (الرعد:۹)

۱۶۔اللہ کسی قوم کی حالت کب تک نہیں بدلتا ؟

تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ،اور کوئی رات کی تاریکی میں چھُپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں ، ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔(الرعد۔۔۔ ۱۱)

۱۷۔پانی سے لدے بادل اور کڑکتی بجلیاں

وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں ۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے۔ اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اُس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں ۔ فی الواقع اُس کی چال بڑی زبردست ہے۔ (الرعد۔۔۔ ۱۳)

۱۸۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کی مثال

اُسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں ۔ انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جھُکتے ہیں ۔(الرعد۔۔۔ ۱۵)

۱۹۔اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کو کارساز بنانا

ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے،سب پر غالب! (الرعد۔۔۔ ۱۶)

۲۰۔پانی کا برسنا اور ندی نالہ کا بہنا

اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پربھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(الرعد۔۔۔ ۱۷)

۲۱۔ رب کی دعوت قبول نہ کرنے کی سزا

جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی ان کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اُتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیار ہو جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانا۔ (الرعد۔۔۔ ۱۸)

۲۲۔نصیحت دانشمند لوگ قبول کرتے ہیں

بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں ؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔ اور ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں ، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ۔(الرعد۔۔۔ ۲۲)

۲۳۔ جنت میں فرشتے استقبال کریں گے

آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور اُن کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں ، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے۔اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ (الرعد۔۔۔ ۲۶)

۲۴۔دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے

یہ لوگ جنہوں نے (رسالتِ محمدیﷺ کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں ، اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری‘‘۔۔۔ کہو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اس نبیﷺ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔ (الرعد۔۔۔ ۲۹)

۲۵۔مصیبت کرتوتوں کی وجہ سے آتی رہتی ہے

اے نبیﷺ ، اسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں ، تاکہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں ۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔ اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔(الرعد۔۔۔ ۳۲)

۲۶۔خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا

پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جا رہی ہیں کہ) لوگوں نے اس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں ؟ اے نبیﷺ ، ان سے کہو (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا ان کے نام لو کہ وہ کون ہیں ؟۔۔۔ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہ راست سے روک دیئے گئے ہیں ، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خدا سے بچانے والا ہو۔ خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔اور منکرین حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔(الرعد۔۔۔ ۳۵)

۲۷۔ رسول از خود کوئی نشانی نہیں دکھا سکتا

اے نبیﷺ ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ’’مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں ، لہٰذا میں اُسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے‘‘۔ اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔ تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔ ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے۔ (الرعد۔۔۔ ۳۹)

۲۸۔اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی

اور اے نبیﷺ ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں ،بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں ؟ اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ان سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں ، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔ یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ’’میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔‘‘۔(الرعد۔۔۔ ۴۳)


سورۂ ابراہیم

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۹۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا

اَ۔لَ۔رَ۔ اے محمدﷺ ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (اُن کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہو جائے۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے ،وہ بالا دست اور حکیم ہے۔ (ابراہیم۔۔۔ ۴) 

۳۰۔ تاریخِ الٰہی کے واقعات سبق آموز ہیں

ہم اس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر۔ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔اس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ بچا رکھتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔( ابراہیم۔۔۔ ۶) 

۳۱۔کُفرانِ نعمت کی سزا بہت سخت ہے

اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔ اور موسیٰؑ نے کہا کہ ’’اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ (ابراہیم۔۔۔ ۸)

۳۲۔ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے

کیا تمہیں اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ؟ قومِ نوحؑ،عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ ان کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے اور کہا کہ ’’جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ ان کے رسولوں نے کہا ’’کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ۔ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند‘‘۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا ’’واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں ۔سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہونا چاہیے‘‘۔ (ابراہیم۔۔۔ ۱۲) 

۳۳۔ جہنم میں کچ لہو کا سا پانی پینے کو ملے گا

آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘۔ انہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں ان کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمنِ حق نے منہ کی کھائی، پھر اس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے۔وہاں اسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا۔ (ابراہیم۔۔۔ ۱۷)

۳۴۔کافروں کے اعمال راکھ جیسی ہے

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ وہ چاہے تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔ (ابراہیم۔۔۔ ۲۰) 

۳۵۔ عذابِ الٰہی سے بڑے بھی نہیں بچا سکتے

اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ’’دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ‘‘۔(ابراہیم۔۔۔ ۲۱) 

۳۶۔شیطان بہکا سکتا ہے، مجبور نہیں کر سکتا

اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اِس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے‘‘۔ (ابراہیم۔۔۔ ۲۲) 

۳۷۔ کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی مثالیں

بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہو گا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔(ابراہیم۔۔۔ ۲۷) 

۳۸۔نعمت کو کفرانِ نعمت میں بدلنے والے

تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفرانِ نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا، یعنی جہنم، جس میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے ، اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں ؟ ان سے کہو، اچھا مزے کر لو، آخرکار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔ (ابراہیم۔۔۔ ۳۰) 

۳۹۔ دنیا میں طلب کے مطابق سب کچھ ملتا ہے

اے نبیﷺ ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ان سے کہہ دوکہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھُپے (راہِ خیر میں ) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوست نوازی ہو سکے گی۔اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ جس نے سُورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگا تار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشُکرا ہے۔(ابراہیم۔۔۔ ۳۴) 

۴۰۔ ابراہیمؑ کو اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کب ملے

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دُعا کی تھی کہ ’’پروردگار، اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا، پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں ۔ پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ‘‘۔ اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں ۔۔۔ ’’شُکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور اسحاقؑ جیسے بیٹے دیئے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دُعا سُنتا ہے۔ اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں )۔ پروردگار، میری دعا قبول کر۔ پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہو گا‘‘۔ (ابراہیم۔۔۔ ۴۱) 

۴۱۔اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل نہیں

اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے۔ اس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ،سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں ۔ اے نبیﷺ ، اس دن سے تم انہیں ڈرا دو جبکہ عذاب انہیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مُہلت اور دیدے، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے‘‘۔ (مگر انہیں صاف جواب دیا جائے گا کہ) ’’کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں ، مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھی کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں ‘‘۔ (ابراہیم۔۔۔ ۴۶) 

۴۲۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

پس اے نبیﷺ ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ ڈراؤ انہیں اس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیئے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔ اس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہوں گے، تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔ یہ اس لیے ہو گا کہ اللہ ہر متنفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں ۔ (ابراہیم۔۔۔ ۵۲)



سورۂ حجر

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔


اَ۔لَ۔رَ۔یہ آیات ہیں کتابِ الٰہی اور قرآن مبین کی۔(الحِجر۔۔۔ ۱)


۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۴ ۔۔۔ ربما کے مضامین


۱۔ ہر قوم کے لیے مہلتِ عمل لکھی جا چکی ہے

بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آ جائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوت اسلام کو قبول کرنے سے) انکار کر دیا ہے، پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کر دیا ہوتا۔چھوڑو انہیں ۔ کھائیں پئیں ، مزے کریں ، اور بھُلاوے میں ڈالے رکھے ان کو جھُوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے، نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے۔(الحِجر۔۔۔ ۵) 

۲۔ جب فرشتے اترتے ہیں تو مہلت نہیں ملتی

یہ لوگ کہتے ہیں ’’اے وہ شخص جس پر یہ ذکر نازل ہوا ہے، تو یقیناً دیوانہ ہے۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتا‘‘؟ ۔۔۔ ہم فرشتوں کو یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے۔ وہ جب اترتے ہیں تو حق کے ساتھ اُترتے ہیں ، اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ رہا یہ ذکر، تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔(الحِجر۔۔۔ ۹)

۳۔اگر اللہ آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتا

اے نبیﷺ ، ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں میں رسول بھیج چکے ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔ مجرمین کے دلوں میں تو ہم اس ذکر کو اسی طرح (سلاخ کے مانند) گزارتے ہیں ۔ وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا۔ (الحِجر۔۔۔ ۱۵)

۴۔آسمانی قلعے شیطان کی پہنچ سے محفوظ ہیں

یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، ان کو دیکھنے والوں کے لیے (ستاروں سے) آراستہ کیا، اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا۔ کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پا سکتا، الاّ یہ کہ کچھ سُن گُن لے لے۔ اور جب وہ سُن گُن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلۂ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے۔ (الحِجر۔۔۔ ۱۸)

۵۔قدرتی خزانوں کا مالک انسان نہیں

ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اگائی، اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں ۔ بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں ، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں ،ا ور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں ۔ا س دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ زندگی اور موت ہم دیتے ہیں ، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں ۔ پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں ۔ یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔ (الحِجر۔۔۔ ۲۵)

۶۔انسان مٹی اور جن آگ سے پیدا کیے گئے

ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔ اور اس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپَٹ سے پیدا کر چکے تھے۔ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دُوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گِر جانا‘‘۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ رب نے پوچھا ’’اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟‘‘ اس نے کہا ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اُس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘۔(الحِجر۔۔۔ ۳۳)

۷۔شیطان کی پیروی اور جہنم کی وعید

رب نے فرمایا ’’اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے‘‘۔ اس نے عرض کیا ’’میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے‘‘۔ فرمایا، ’’اچھا، تجھے مُہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے‘‘۔وہ بولا ’’میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں ان کے لیے دل فریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گا، سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو‘‘۔ فرمایا ’’یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔ بیشک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف ان بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں ، اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے‘‘۔یہ جہنم (جس کی وعید پیروَانِ ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں ، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔(الحِجر۔۔۔ ۴۴)

۸۔متقی کے دل کی تھوڑی بہت کھوٹ کا خاتمہ

بخلاف اس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔ ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ انہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔اے نبیﷺ ، میرے بندوں کو خبر دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں ۔ مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔ (الحِجر۔۔۔ ۵۰)

۹۔ابراہیمؑ کو بڑھاپے میں اولاد کی بشارت

اور انہیں ذرا ابراہیمؑ کے مہمانوں کا قصہ سناؤ۔ جب وہ آئے اُس کے ہاں اور کہا ’’سلام ہو تم پر‘‘، تو اس نے کہا ’’ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’ڈرو نہیں ، ہم تمہیں ایک بڑے سیانے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو؟ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہے ہو‘‘؟ انہوں نے جواب دیا، ’’ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں ، تم مایوس نہ ہو‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا ’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ‘‘۔ (الحِجر۔۔۔ ۵۶)

۱۰۔ قومِ لوطؑ پر عذاب کے فرشتوں کا نزول

پھر ابراہیمؑ نے پُوچھا ’’اے فرستادگان الٰہی، وہ مہم کیا ہے جس پر آپ حضرات تشریف لائے ہیں ‘‘؟ وہ بولے ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔صرف لوطؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں ، اُن سب کو ہم بچا لیں گے، سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے مقدر کر دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی‘‘۔ پھر جب یہ فرستادے لوطؑ کے ہاں پہنچے تو اس نے کہا ’’آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں ، بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے آنے میں یہ لوگ شک کر رہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں ۔ لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ بس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے‘‘۔ اور اُسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ (الحِجر۔۔۔ ۶۶)

۱۱۔ قومِ لوطؑ کی بستی پر پتھروں کی بارش

اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بیتاب ہو کر لوطؑ کے گھر چڑھ آئے۔ لوطؑ نے کہا ’’بھائیو،یہ میرے مہمان ہیں ، میری فضیحت نہ کرو، اللہ سے ڈرو، مجھے رُسوا نہ کرو‘‘۔ وہ بولے ’’کیا ہم بارہا تمہیں منع نہیں کر چکے ہیں کہ دنیا بھر کے ٹھیکے دار نہ بنو‘‘؟ لوطؑ نے (عاجز ہو کر) کہا ’’اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ‘‘! تیری جان کی قسم اے نبیﷺ ، اس وقت اُن پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔ آخرکار پَو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا اور ہم نے اُس بستی کو تَل پَٹ کر کے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی۔اس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو صاحب فراست ہیں ۔اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) گزرگاہ عام پر واقع ہے، اس میں سامان عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو صاحب ایمان ہیں ۔اور اَیکہ والے ظالم تھے، تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی اُن سے انتقام لیا،اور ان دونوں قوموں کے اجڑے ہوئے علاقے کھلے راستے پر واقع ہیں ۔ (الحِجر:۷۹)

۱۲۔پہاڑ تراش کر بنے مکانات کا حشر

حِجر کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کر چکے ہیں ۔ ہم نے اپنی آیات ان کے پاس بھیجیں ، اپنی نشانیاں ان کو دکھائیں ، مگر وہ سب کو نظرانداز ہی کرتے رہے۔ وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے۔ آخرکار ایک زبردست دھماکے نے اُن کو صبح ہوتے آ لیا اور ان کی کمائی کے کچھ کام نہ آئی۔(الحِجر۔۔۔ ۸۴)

۱۳۔ قرآنی آیتیں دہراتے رہنے کے لیے ہیں

ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے، اور فیصلے کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے، پس اے نبیﷺ ، تم (ان لوگوں کی بیہودگیوں ) پر شریفانہ درگزر سے کام لو۔یقیناً تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ہم نے تم کو ساتھ ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں ، اور تمہیں قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ تم اُس متاعِ دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ ان کے حال پر اپنا دل کُڑھاؤ۔انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھُکو اور (نہ ماننے والوں سے) کہہ دو کہ ’’میں تو صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں ‘‘۔ یہ اُسی طرح کی تنبیہ ہے جیسی ہم نے اُن تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۔ تو قسم ہے تیرے رب کی، ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (الحِجر۔۔۔ ۹۳)

۱۴۔مشرکوں کی باتوں کا علاج اللہ کی حمد ہے

پس اے نبیﷺ ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم اُن مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی خدا قرار دیتے ہیں ۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔ (اس کا علاج یہ ہے کہ) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے( الحِجر:۹۹)

سورۂ نحل

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور ر حم فرمانے والا ہے۔

۱۵۔اللہ کے فیصلہ کے لیے جلدی نہ مچاؤ

آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو)’’آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو‘‘۔ اس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بُوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا( النحل۴)

۱۶۔خوراک، پوشاک اور سواری کے جانور

اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انہیں چَرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔ اس نے گھوڑے اور خچرّ اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں ۔وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں ۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (النحل۔۔۔ ۹)

۱۷۔ بارش میں عقلمندوں کے لیے نشانی ہے

وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔اس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔(النحل۔۔۔ ۱۱)

۱۸۔سورج چاند تارے اللہ کے حکم سے مسخر ہیں

اس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخر ہیں ۔ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔ اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں ، ان میں بھی ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں (النحل۔۔۔ ۱۳)

۱۹۔سمندر انسانوں کے لیے مسخر کیے گئے

وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تر و تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو۔(النحل۔۔۔ ۱۴)

۲۰۔ زمین میں پہاڑوں کی میخیں ہیں

اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھُلک نہ جائے۔ اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں ،ا ور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں ؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے ؟ اگر تُم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے، حالانکہ وہ تمہارے کھُلے سے بھی واقف ہے اور چھُپے سے بھی۔اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ۔مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۔(النحل۔۔۔ ۲۱)

۲۱۔قرآن اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں نہیں

تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں ۔ اللہ یقیناً ان کے سب کرتوت جانتا ہے، چھپے ہوئے بھی اور کھُلے ہوئے بھی۔ وہ اُن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہوں ۔اور جب کوئی اُن سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں ’’اجی وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ‘‘۔ یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں ،ا ور ساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بربنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں ۔دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں ۔(النحل۔۔۔ ۲۴)

۲۲۔ عذاب ایسے آیا جدھر سے گمان نہ تھا

ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں ، تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اُس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رُخ سے ا ن پر عذاب آیا۔جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا۔ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا۔ اور ان سے کہے گا ’’بتاؤ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہلِ حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے‘‘؟۔۔۔ جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ’’آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے‘‘۔ ہاں ، انہی کافروں کے لیے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں تو (سرکشی چھوڑ کر) فوراً ڈَگیں ڈال دیے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے‘‘۔ ملائکہ جواب دیتے ہیں ’’کر کیسے نہیں رہے تھے! اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے۔اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھُس جاؤ۔وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے‘‘۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے متکبروں کے لیے۔(النحل:۲۹)

۲۳۔ متقیوں کی رُوح کیسے قبض ہوتی ہے

دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’بہترین چیز اُتری ہے‘‘۔ اس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا، دائمی قیام کی جنتیں ،جن میں وہ داخل ہوں گے،نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔اُن متقیوں کو جن کی رُوحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’سلام ہو تم پر ، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے‘‘۔( النحل۔۔۔ ۳۲)

۲۴۔کافروں کے کرتوتوں کی خرابیاں

اے نبیﷺ ، اب جو یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں تو اس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آ پہنچیں ، یا تیرے رب کا فیصلہ صادر ہو جائے؟ اسی طرح کی ڈھٹائی ان سے پہلے بہت سے لوگ کر چکے ہیں ۔ پھر جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ ان پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوں نے خود اپنے اوپر کیا۔ اُن کے کرتوتوں کی خرابیاں آخرکار ان کی دامنگیر ہو گئیں اور وہی چیز ان پر مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (النحل:۳۴)

۲۵۔رسولوں کی ذمہ داری پیغام پہنچا دینا ہے

یہ مشرکین کہتے ہیں ’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے‘‘۔ ایسے ہی بہانے ان سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں ۔ تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی۔ پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔۔۔۔ اے نبیﷺ ، تم چاہے ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کر سکتا۔(النحل۔۔۔ ۳۷)

۲۶۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے

یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ’’اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا‘‘۔۔۔ اٹھائے گا کیوں نہیں ؟ یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ،اور منکرین حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے (رہا اُس کا امکان، تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ’’ہو جا‘‘ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔( النحل۔۔۔ ۴۰)

۲۷۔اللہ کی خاطر ہجرت کرنے والوں کا ٹھکانہ

جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام ان کا منتظر ہے) (النحل۔۔۔ ۴۲)

۲۸۔سارے رسول آدمی ہی تھے

اے نبیﷺ ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے، اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں ۔(النحل۔۔۔ ۴۴)

۲۹۔ عذابِ الٰہی سے بے خوف لوگوں کی چالیں

پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں ) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو، یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں ؟ وہ کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی نرم خُو اور رحیم ہے۔(النحل:۴۷)

۳۰۔سایہ اللہ کے حضور سجدہ کرتا ہے

اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟سب کے سب اس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں ۔ زمین اور آسمان میں جس قدر جان دار مخلوقات اور جتنے ملائکہ، سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں ۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۵۰)

۳۱۔ سار ی نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں

اللہ کا فرمان ہے کہ ’’دو خدا نہ بنا لو،خدا تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو‘‘۔ اسی کا ہے وہ کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں ) چل رہا ہے۔ پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟ تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریا دیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو۔ مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو (اس مہربانی کے شکریے میں ) شریک کرنے لگتا ہے، تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے۔اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ان کے حصے ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں ۔ خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟( النحل۵۶)

۳۲۔ خدا کے لیے بیٹیاں اپنے لیے بیٹے؟

یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ سبحان اللہ! اور ان کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں ؟ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں چھُپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟۔۔۔ دیکھو کیسے بُرے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں ۔ بُری صفات سے متصف کیے جانے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے۔ رہا اللہ تو اس کے لیے سب سے برتر صفات ہیں ، وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے۔ اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ آج یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے تجویز کر رہے ہیں جو خود اپنے لیے انہیں ناپسند ہیں ، اور جھوٹ کہتی ہیں ان کی زبانیں کہ ان کے لیے بھلا ہی بھلا ہے۔ ان کے لیے تو ایک ہی چیز ہے،ا ور وہ ہے دوزخ کی آگ۔ ضرور یہ سب سے پہلے اس میں پہنچائے جائیں گے( النحل۶۲)

۳۳۔شیطان بُرے کام خوشنما بنا کر دکھاتا ہے

خدا کی قسم، اے نبیﷺ ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے بُرے کرتوت انہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی)۔ وہی شیطان آج ان لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں ۔ ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ کتاب رہنمائی اور رحمت بن کر اُتری ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے مان لیں ۔ (النحل۔۔۔ ۶۴)

۳۴۔مردہ زمیں بارش سے زندہ ہو جاتی ہے

(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے۔(النحل۔۔۔ ۶۵)

۳۵۔دودھ گوبر اور خون کے درمیان بنتا ہے

اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ اُن کے پیٹ سے گوبر اور خُون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں ، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔ (النحل۔۔۔ ۶۶)

۳۶۔ پاک کھجور اور انگور کو نشہ آور بنا لینا

(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ (النحل۔۔۔ ۶۷)

۳۷۔ شہد میں لوگوں کے لیے شفا ہے

اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں ، اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں ، اپنے چھتّے بنا، اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس، اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۶۹)

۳۸۔بد ترین عمر کو پہنچنے والے

اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔ (النحل:۷۰)

۳۹۔اللہ ہی نے رزق میں فضیلت عطا کی ہے

اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں ۔ تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟ (النحل۔۔۔ ۷۱)

۴۰۔اللہ ہی نے ہم جنس بیویاں بنائیں

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اُسی نے ان بیویوں میں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں ۔پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں ؟ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔( النحل۔۔۔ ۷۴)

۴۱۔ غلام اور مالک برابر نہیں

اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ایک تو ہے غلام، جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خوب خرچ کرتا ہے۔ بتاؤ، کیا یہ دونوں برابر ہیں ؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو) نہیں جانتے۔ (النحل۔۔۔ ۷۵)

۴۲۔گونگے بہرے آدمی کی مثال

اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں ۔ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے،جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے۔دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے۔ بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں ؟ (النحل۔۔۔ ۷۶)

۴۳۔اللہ نے سوچنے والے دل کیوں دیئے؟

اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے،بلکہ اسے بھی کچھ کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیئے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیئے، اس لیے کہ تم شکرگزار بنو۔ (النحل۔۔۔ ۷۸)

۴۴۔پرندوں کو فضا میں کس نے تھام رکھا ہے؟

کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخّر ہیں ؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۷۹)

۴۵۔اللہ نے گھروں کو جائے سکون بنایا

اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا۔اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ اس کے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں ۔ اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا،پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں ، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں ۔اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرمانبردار بنو۔ اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیﷺ ، تم پر صاف صاف پیغامِ حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں ، پھر اس کا انکار کرتے ہیں ۔اور ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۸۳)

۴۶۔ عذاب دیکھنے کے بعد مہلت نہیں ملے گی

(انہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا نہ اُن سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں گے تو اس کے بعد نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ انہیں ایک لمحہ بھر مہلت دی جائے گی۔ اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے ’’اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے‘‘۔ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ ’’تم جھوٹے ہو‘‘۔ اس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھک جائیں گے اور ان کی وہ ساری افترا پردازیاں رفوچکر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے اُس فساد کے بدلے جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔ (النحل۔۔۔ ۸۸)

۴۷۔ ہر امت کے اندر سے ایک گواہ ہو گا

(اے نبیﷺ ، انہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جبکہ ہم ہر امت میں خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے۔ اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔ (النحل۔۔۔ ۸۹)

۴۸۔سوت کات کر خود ہی ٹکڑے کرنے والی

اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔ تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سُوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے۔حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس ہو کر رہے گی۔ (النحل۔۔۔ ۹۳)

۴۹۔قسموں کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بناؤ

(اور اے مسلمانو،) تم اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اور تم اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، بُرا نتیجہ دیکھو اور سزا بھگتو۔ اللہ کے عہد کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے ۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن،اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں ) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے( النحل۔۔۔ ۹۷)

۵۰۔ شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو

پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔اُسے اُن لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں ۔ اس کا زور تو اُنہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں ۔جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں ۔۔۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے۔۔۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ ان سے کہو کہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پُختہ کرے اور فرمانبرداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور ا نہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔ (النحل۔۔۔ ۱۰۲)

۵۱۔ اللہ کی آیات کو نہ ماننے والے جھوٹے ہیں

ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۱۰۵)

۵۲۔مجبوراً کفر اختیار کرنا قابلِ معافی ہے

جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں ۔ ضرور ہے کہ آخرت میں یہی خسارے میں رہیں ۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو انہوں نے گھر بار چھوڑ دیئے، ہجرت کی، راہ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا، ان کے لیے یقیناً تیرا رب غفور و رحیم ہے۔ (ان سب کا فیصلہ اس دن ہو گا) جبکہ ہر متنفس اپنے ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہوا ہو گا اور وہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا۔ (النحل۔۔۔ ۱۱۱)

۵۳۔کفرانِ نعمت پر بھوک اور خوف کی مصیبتیں

اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا۔تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں ۔ان کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا۔ مگر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار عذاب نے ان کو آ لیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے۔ (النحل۔۔۔ ۱۱۳)

۵۴۔بھوک سے بے قرار ہو کر حرام کھانا

پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھاؤ اور ا للہ کے احسان کا شکر ادا کرو اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو۔اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے ،وہ ہے مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔البتہ بھوک سے مجبور اور بیقرار ہو کر اگر کوئی ان چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھو۔جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخرکار ان کے لیے دردناک سزا ہے۔وہ چیزیں ہم نے خاص طور پر یہودیوں کے لیے حرام کی تھیں جن کا ذکر اس سے پہلے ہم تم سے کر چکے ہیں اور یہ ان پر ہمارا ظلم نہ تھا بلکہ ان کا اپنا ہی ظلم تھا جو وہ اپنے اوپر کر رہے تھے۔ البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر بُرا عمل کیا اور پھر توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کر لی تو یقیناً توبہ و اصلاح کے بعد تیرا رب ان کے لیے غفور اور رحیم ہے۔(النحل۔۔۔ ۱۱۹)

۵۵۔ سبت کا قانون اللہ نے مسلط کیا تھا

واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سُو۔وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ دنیا میں اس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔ پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سُو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا اور یقیناً تیرا رب قیامت کے روز اُن سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۱۲۴)

۵۶۔ حکمت کے ساتھ دعوت اور مباحثہ کرو

اے نبیﷺ ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔ اے نبیﷺ ، صبر سے کام کیے جاؤ ۔۔۔ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔۔۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں ۔ (النحل۔۔۔ ۱۲۸)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۱۵۔۔۔ سبحٰن الذی کے مضامین


سورۂ بنی اسرائیل

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔

۱۔بنی اسرائیل کا دو تین مرتبہ فسادِ عظیم برپا کرنا

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ہم نے اس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکرگزار بندہ تھا۔ پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ آخرکار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے ، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے ( بنی اسرائیل:۱۰)

۲۔انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے

انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کر کے رکھا ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۱۲) 

۳۔ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا ہے

ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔ جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۱۵) 

۴۔امراء کی نافرمانیاں ، بستی کی ہلاکت کا سبب

جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے۔ اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں ۔ تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ (اسرائیل۔۔۔ ۱۷) 

۵۔دنیا ہی میں فائدے کے خواہشمند لوگ

جو کوئی (اس دنیا میں ) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں ، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر۔ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔ اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں ) سامانِ زیست دیے جا رہے ہیں ، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مگر دیکھ لو، دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اُس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہو گی۔تُو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔( بنی اسرائیل:۲۲) 

۶۔ بوڑھے والدین کو اُف تک نہ کہو

تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں ، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھُک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر متنبہ ہو کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۲۵) 

۷۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں

رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ اگر ان سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔ نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔ ( بنی اسرائیل۳۰) 

۸۔ رب کے نزدیک ناپسندیدہ چند برے امور

اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ۔ قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی۔ مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔ زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ان امور سے بھی ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں ۔ اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۴۰) 

۹۔ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے

ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں ، مگر وہ حق سے اور زیادہ دور ہی بھاگے جا رہے ہیں ۔ ا ے نبیﷺ ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو وہ مالک عرش کے مقام کو پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں ۔ اس کی پاکی تو ساتوں آسمانوں اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بُرد بار اور درگزر کرنے والا ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۴۴)

۱۰۔جب تم قرآن پڑھتے ہو

جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں ، اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں ، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں ۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحرزدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو۔ دیکھو،کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں ، یہ بھٹک گئے ہیں ، انہیں راستہ نہیں ملتا۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۴۸) 

۱۱۔ہم خاک ہو کر دوبارہ اٹھائے جائیں گے

وہ کہتے ہیں ’’جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے‘‘؟۔۔۔ ان سے کہو ’’تم پتھر یا لوہا بھی ہو جاؤ،یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو‘‘ (پھر بھی تم اٹھ کر رہو گے)۔ وہ ضرور پوچھیں گے ’’کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا‘‘؟ جواب میں کہو ’’وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا‘‘۔ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے ’’اچھا، تو یہ ہو گا کب‘‘؟ تم کہو ’’کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آ لگا ہو۔ جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہو گا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں ‘‘۔( بنی اسرائیل۔۔۔ ۵۲)

۱۲۔ فساد ڈلوانے کی کوشش شیطان کرتا ہے

اور اے نبیﷺ ، میرے بندوں (یعنی مومن بندوں ) سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ تمہارا رب تمہارے حال سے خوب واقف ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دیدے۔ اور اے نبیﷺ ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔تیرا رب زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیئے، اور ہم نے ہی داؤدؑ کو زبور دی تھی۔ (اسرائیل۔۔۔ ۵۵) 

۱۳۔ جھوٹے معبود کسی تکلیف کو ہٹا نہیں سکتے

ان سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں ۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں ، یہ نوشتۂ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۵۸) 

۱۴۔ تنبیہ پر نافرمانوں کی سرکشی میں اضافہ

اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں ۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے عَلانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں ۔ یاد کرو اے نبیﷺ ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے،اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔ ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں ، مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۶۰)

۱۵۔شیطان کا وعدہ ایک دھوکہ ہے

اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا ’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘ پھر وہ بولا ’’ دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مُہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں ، تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے۔ تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔ یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا، اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے‘‘۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۶۵) 

۱۶۔خشکی و تری میں سواریاں عطا ہوئیں

تمہارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟ اور کیا تمہیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کر سکے؟ ۔۔۔ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۷۰) 

۱۷۔ لوگوں کو ان کے پیشوا کے ہمراہ بلایا جائے گا

پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ اس وقت جن لوگوں کو ان کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۷۲) 

۱۸۔رسولوں کے معاملے میں اللہ کا طریقہ

اے نبیﷺ ، ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھُک جاتے۔ لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دُوہرے عذاب کا مزا چکھاتے اور آخرت میں بھی دُوہرے عذاب کا۔ پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں ۔ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے۔یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا۔ اور ہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے( ب بنی اسرائیل۔۔۔ ۷۷) 

۱۹۔ فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو

نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔ اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقامِ محمود پر فائز کر دے۔اور دُعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔اور اعلان کر دو کہ ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۸۱) 

۲۰۔قرآن ماننے والوں کے لیے رحمت ہے

ہم اس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا ہے اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ اے نبیﷺ ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۔۔۔ ۸۴)

۲۱۔ روح اللہ کے حکم سے آتی ہے

یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔کہو ’’یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے‘‘۔ اور اے نبیﷺ ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے۔ پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے۔ یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے رب کی رحمت سے ملا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۸۷) 

۲۲۔جن و انس مل کر بھی قرآن نہیں بنا سکتے

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں ۔ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے اور انہوں نے کہا ’’ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تُو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے۔ یا تُو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے۔ یا تُو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ‘‘ اے نبیﷺ ، ان سے کہو ’’پاک ہے میرا پروردگار!کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ‘‘؟( بنی اسرائیل۔۔۔ ۹۳) 

۲۳۔انسانوں کے بیچ انسان ہی پیغمبر بھیجا گیا

لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اسی قول نے کہ ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔اے نبیﷺ ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اس کے سوا ایسے لوگوں کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں پا سکتا۔ ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گونگے اور بہرے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا ’’کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟‘‘ کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اُس نے ان کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔اے نبیﷺ ، ان سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۱۰۰) 

۲۴۔فرعون کو ساتھیوں سمیت غرق کیا گیا

ہم نے موسیٰؑ کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں ۔ اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب موسیٰؑ ان کے ہاں آئے تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ ’’اے موسیٰؑ ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سِحرزدہ آدمی ہے‘‘۔ موسیٰؑ نے ا س کے جواب میں کہا ’’تُو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں زمین اور آسمانوں کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں ، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون، تو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے‘‘۔ آخرکار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہو گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لا حاضر کریں گے۔ ( بنی اسرائیل۔۔۔ ۱۰۴) 

۲۵۔ قرآن کو بتدریج نازل کیا گیا

اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے نبیﷺ ، تمہیں ہم نے اس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اُسے) متنبہ کر دو۔ اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے۔ اے نبیﷺ ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ( بنی اسرائیل:۱۰۹) 

۲۶۔اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو

اے نبیﷺ ، ان سے کہو، ’’اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں ‘‘۔ اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پُشتی بان ہو‘‘۔ اور اس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی۔ (بنی اسرائیل:۱۱۱)

سورۃ کہف

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

۲۷۔پوری زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ محض جھُوٹ بکتے ہیں ۔اچھا، تو اے نبیﷺ ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخرکار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں ۔ (الکھف۔۔۔ ۸) 

۲۸۔ اصحابِ کہف غار میں لمبی نیند سُلا دیے گئے

کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہماری کوئی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’’اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے‘‘، تو ہم نے انہیں اسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلا دیا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ (الکھف۔۔۔ ۱۲) 

۲۹۔ اصحابِ کہف کا اصل قصہ

ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں ۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ’’ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے‘‘۔ (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) ’’یہ ہماری قوم تو ربّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبود ان غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سر و سامان مہیا کر دے گا‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۱۶) 

۳۰۔ سورج غار کو چھوڑ کر طلوع و غروب ہوتا رہا

تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سُورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی مرشد نہیں پا سکتے۔ (الکھف۔۔۔ ۱۷) 

۳۱۔ کتا غار کے دہانے پر بیٹھا رہا

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور ان کا کُتاّ غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔ (الکھف۔۔۔ ۱۸) 

۳۲۔ اصحابِ کہف کا طویل نیند سے بیدار ہونا

اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں ۔ اُن میں سے ایک نے پوچھا، ’’کہو، کتنی دیر اس حالت میں رہے؟‘‘ دوسروں نے کہا ’’شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے‘‘۔ پھر وہ بولے ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حالت میں گزرا۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے‘‘۔۔۔ اس طرح ہم نے اہل شہر کو اُن کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آ کر رہے گی۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’ان پر ایک دیوار چُن دو، ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے‘‘۔ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ’’ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۲۱) 

۳۳۔ اصحابِ کہف: صحیح تعداد اللہ ہی جانتا ہے

کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتاّ تھا۔ اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتاّ تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں ۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتاّ تھا۔ کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں ۔ پس سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی
سے کچھ پوچھو۔(الکھف۔۔۔ ۲۲)

۳۴۔وہ غار میں تین سو سال تک سوتے رہے

اور دیکھو، کسی چیز کے بارے میں کبھی نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔ (تم کچھ نہیں کر سکتے) الاّ یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے رب کو یاد کرو اور کہو ’’امید ہے کہ میرا رب اس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا‘‘۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ مدت کے شمار میں ) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں ۔ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدت زیادہ جانتا ہے،آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں ، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا! (زمین و آسمان کی مخلوقات کا) کوئی خبرگیر اس کے سوا نہیں ، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف۔۔۔ ۲۶) 

۳۵۔ افراط و تفریط پر مبنی طریقِ کار والے

اے نبیﷺ ، تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں ) سُنا دو،کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔ اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں ، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں ۔ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا اور اُن کے منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ! (الکھف۔۔۔ ۲۹) 

۳۶۔جنتی ،سونے کے کنگن، اور ریشمی لباس

رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں ،تو یقیناً ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!(الکھف۔۔۔ ۳۱) 

۳۷۔انگور کے باغ پر گھمنڈ کرنے والے کا حشر

اے نبیﷺ ، ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ دو شخص تھے۔ ان میں سے کو ہم نے انگور کے دو باغ دیئے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بار آور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ’’میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں ‘‘۔ پھر وہ اپنی جنت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی، اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا‘‘۔ اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ’’کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟ رہا میں ، تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ، لا قوۃ الا باللہ؟ اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے‘‘ آخرکار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ مارا گیا اور وہ اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیّوں پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ ’’کاش! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا‘‘ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھاّ کہ اس کی مدد کرتا ، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ اس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔ (الکھف۔۔۔ ۴۴)

۳۸۔مال و اولاد محض دنیوی ہنگامی آرائش ہیں

اور اے نبیﷺ ، انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔ فکر اس دن کی ہونی چاہیے جبکہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے ، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھُوٹے گا، اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں گے ۔۔۔ لو دیکھ لو، آ گئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔۔۔ اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ’’ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو‘‘۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ (الکھف۔۔۔ ۴۹) 

۳۹۔ ابلیس انسان کا دشمن ہے

یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذُریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں ۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت ان کو نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنایا کروں ۔ پھر کیا کریں گے یہ لوگ اس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ (الکھف۔۔۔ ۵۳)

۴۰۔انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے

ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ ان کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر ان کو کس چیز نے روک دیا؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے،یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں ! (الکھف۔۔۔ ۵۵) 

۴۱۔رسولوں کا کام بشارت و تنبیہ دینا ہے

رسولوں کو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دے دیں ۔ مگر کافروں کا یہ حال ہے کہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور انہوں نے میری آیات کو اور ان تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سُنا کر نصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیئے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے اور ان کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔ تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔(الکھف۔۔۔ ۵۹) 

۴۲۔ سفرِ موسیٰؑ اور مچھلی کا دریا میں گرنا

(ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا ’’ لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں ‘‘۔ خادم نے کہا ’’آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسیٰؑ نے کہا، ’’اسی کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۶۴) 

۴۳۔صاحبِ دانش سے موسیٰؑ کی ملاقات

چنانچہ و ہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔موسیٰؑ نے اس سے کہا ’’کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ؟‘‘ موسیٰؑ نے کہا ’’انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا‘‘۔ اس نے کہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں ۔(الکھف۔۔۔ ۷۰) 

۴۴۔کشتی میں شگاف اور لڑکے کا قتل

اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اُس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں ؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی‘‘۔ اس نے کہا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘ موسیٰؑ نے کہا ’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں ‘‘۔پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ کیا تھا؟یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘۔ (الکھف۔۔۔ ۷۴)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ٭۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں