سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 42


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 42 

سب سے پہلے ایمان لانے والے: 


سابقہ قسط میں اس بات کا ذکر رہ گیا تھا کہ جب غار حرا میں حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر حاضر ہوئے تو اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے زمین پر پاؤں مارا جس سے پانی نمودار ہوا، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے خود وضو کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی طرح وضو کیا، اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو رکعت نماز چار سجدوں کے ساتھ پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقتدا فرمائی۔

پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے منصب اور مقام کا علم ہو چکا تھا، جناب ورقہ بن نوفل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تشریف لے جانا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خواہش کے احترام کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے آغاز کا مرحلہ بھی تھا، جس کے لئے قدرت نے جناب ورقہ بن نوفل کو ابتدائی کڑی بنایا، منصب نبوت کے علم کے بعد تصدیق کرنے والوں کی ضرورت تھی، یہ سعادت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جناب ورقہ کے حصہ میں آئی۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر لوٹے اور نزول وحی کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دلجوئی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق عالیہ بیان کئے، تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر آفت سے محفوظ رکھے گا، مزید کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی جان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک اللہ کے نبی ہیں،  بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے خیر کے اور کچھ نہیں کرے گا، جو منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ہے وہ حق ہے، یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسولِ برحق ہیں۔

جناب ورقہ بن نوفل نے تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی، اس کے چند دنوں بعد جناب ورقہ کی وفات ہو گئی، چونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی، اس لئے اکثر سیرت نگار آپ کو صحابی کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں۔

اللہ کے آخری رسول پر ایمان لانے والی پہلی خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں، بعثت کے فوراً بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور چاروں صاحبزادیاں ایمان لے آئیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا روئے زمین کی پہلی مؤمنہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ صرف مونس وغمگسار بلکہ مشیر وشریک کار رہیں۔

بعثت کے دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ اللہ کا دین ہے، یہی دین لے کر پیغمبر دنیا میں آئے ہیں، میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اسی کی عبادت کرو۔"

رات گزری اور دوسرے دن صبح وہ ایمان لے آئے، اس وقت ان کی عمر آٹھ اور دس سال کے درمیان تھی۔

خانوادۂ نبوت کے تیسرے فرد جنہیں آزاد کردہ غلاموں میں اول المسلمین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا،  وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں، جو قبیلہ بنوقضاعہ کے سردار حارثہ ابن شراجیل کے بیٹے تھے، سفر کے دوران ڈاکوؤں نے اغوا کرکے عکّاظ کے بازار میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو فروخت کردیا تھا، انہیں نے اپنی پھوپھی کے حوالے کیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لئے مامور کیا، بعد میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے باپ کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ انہیں لینے آیا، مگر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے اور اپنا بیٹا کہا کرتے تھے اور وہ "زید بن محمد" کہلاتے تھے، تاآنکہ سورۂ احزاب میں حکم نازل ہوا کہ "لوگوں کو اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا کرو

ان کی پہلی شادی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز اُم ایمن رضی اللہ عنہا سے ہوئی جن سے حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، ان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا لیکن تفاوت مزاج کی بنا پر طلاق ہو گئی، حضرت زید رضی اللہ عنہ سریہ موتہ (۸ ہجری) میں شہید ہوئے، آپ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں، جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔

آزاد مردوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگری دوست حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ کو اول المسلمین ہونے کا شرف حاصل ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ کے دولت مند تاجر، ماہر انساب، صائب الرائے اور فیاض فرد تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جس کسی پر اسلام پیش کیا، وہ اس سے کچھنہ کچھ جھجکا بجز ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرہ برابر توقف نہیں کیا۔

 ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، انہوں نے اپنا سارا سرمایہ تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردیا، ہر نازک لمحہ میں رفاقت کا حق ادا کیا، معراج کی صبح کفار کے پوچھنے پر بلا پس و پیش اس محیر العقول واقعہ کی تصدیق کی، ہجرت کے خطرناک سفر اور غار ثور میں ساتھ رہنے کی بدولت "ثانی اثنین" کہلائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو "صدیق" کے لقب سے نوازا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابی یعنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ،  حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں