سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 52


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 52
رسول اللہ ﷺ پر دست درازیاں:

قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آرہے تھے، درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں، چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے، تحقیر اور استہزاء، تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے، اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ظلم وتعدی کا ہاتھ بھی بڑھا دیا۔

یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا ابولہب سر فہرست ہو، کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا، وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی یہی تھا، اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے۔

بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے کی تھی،  لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی، اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتر (نسل بریدہ) ہوگئے ہیں۔ (نعوذ بااللہ)

ایام حج میں ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کے لیے بازاروں، اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا، صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتا رہتا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں۔

ابو لہب کی بیوی اُم جمیل جس کا نام اَرْویٰ تھا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت میں اپنے شوہر سے پیچھے نہ تھی، چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی، خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنا، لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری و افتراء پردازی سے کام لینا، فتنے کی آگ بھڑکانا اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا۔

ابو لہب اس کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا اور پڑوسی تھا، یہ ساری حرکتیں کررہا تھا، اس کا گھر آپ کے گھر سے متصل تھا، اسی طرح آپ کے دوسرے پڑوسی بھی آپ کو گھر کے اندر ستاتے تھے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جو گروہ گھر کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا: ابو لہب، حَکم بن ابی العاص بن امیہ، عقبہ بن ابی مُعیط،  عَدِی بن حمراء ثقفی، ابن الاصداء ہذلی۔ ان میں سے حکم بن ابی العاص (یہ اموی خلیفہ مروان بن الحکم کے باپ ہیں) کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔

ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ کے اوپر گرتی، چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجبور ہوکر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں، بہرحال جب آپ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے: "اے بنی عبد مناف! یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟" پھر اسے سائیڈ پر ڈال دیتے۔

عُقبہ بن ابی مُعیط اپنی بدبختی اور خباثت میں اور بڑھا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں بعض نے بعض سے کہا: "کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے۔" اس پر قوم کا بدبخت ترین آدمی عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اوجھڑی لاکر انتظار کرنے لگا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا، اس کے بعد وہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہی پڑے رہے، سَر نہ اٹھایا، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ کی پیٹھ سے اوجھڑی ہٹا کر پھینکی، تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سَر اٹھایا، پھر تین بار فرمایا: "اللّٰھم علیکَ بِقُریش۔ اے اللہ! تو قریش کو پکڑ لے۔"

جب آپ نے بدعا کی تو ان پر بہت گراں گزری، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام لے لے کر بددعا کی۔ "اے اللہ! ابوجہل کو پکڑ لے اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے۔" انہوں نے ساتویں کا بھی نام گنایا، لیکن راوی کو یاد نہ رہا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!  میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گن گن کر لیے تھے، سب کے سب بدر کے کنویں میں مقتول پڑے ہوئے تھے۔

ابو جہل نے پہلے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا، ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا، دیکھتے ہی بولا: "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا؟" ساتھ ہی دھمکی بھی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا، اس پر وہ کہنے لگا: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!  کاہے کی دھمکی دے رہے ہو، دیکھو، اللہ کی قسم! اس وادی (مکہ ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔"
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: " فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷) اچھا! تو بلائے اپنی محفل کو (ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)"

اس ڈانٹ کے باوجود ابوجہل اپنی حماقت سے باز آنے والا نہ تھا، بلکہ اس کی بدبختی میں کچھ اور اضافہ ہی ہوگیا، چنانچہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک بار سردارانِ قریش سے) ابوجہل نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ حضرات کے رُو برو اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے؟ جواب دیا گیا: " ہاں " اس نے کہا: "لات وعزیٰ کی قسم! اگر میں نے (اس حالت میں) اسے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔"
اس کے بعد اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس زعم میں چلا کہ آپ کی گردن روند دے گا، لیکن لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھ سے بچاؤ کر رہا ہے، لوگوں نے کہا: "ابو الحکم! تمہیں کیا ہوا؟" اس نے کہا: "میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے، ہولناکیاں ہیں اور پَر ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے۔"
اُمَیہ بن خلف کا وطیرہ تھا کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا، اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (۱۰۴: ۱)
 ''ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے۔''

ابن ہشام کہتے ہیں ھُمَزَہ وہ شخص ہے جو علانیہ گالی بکے اور آنکھیں ٹیڑھی کرکے اشارے کرے اور لُمَزَہ وہ شخص جو پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائیاں کرے اور انہیں اذیت دے۔

اُمیہ کا بھائی اُبی بن خلف، عُقبہ بن ابی معیط کا گہرا دوست تھا، ایک بار عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کچھ سنا، اُبی کو معلوم ہوا تو اس نے سخت سست کہا، عتاب کیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ پر تھوک آئے، آخر عُقبہ نے ایسا ہی کیا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں