سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 50


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 50 

مقابلے کی تدبیریں: 


مشرکین اپنے مذکورہ شبہات کو پھیلانے کے علاوہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو قرآن کی سماعت سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے، چنانچہ وہ لوگوں کو ایسی جگہوں سے بھگاتے اور جب دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت وتبلیغ کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں یا نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں تو شور کرتے اور تالیاں اور سیٹیاں بجاتے۔

اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے مجمعوں اور محفلوں کے اندر پہلی بار قرآن تلاوت کرنے کا موقع پانچویں سن نبوت کے اخیر میں مل سکا، وہ بھی اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت شروع کردی اور پہلے سے کسی کو اس کا اندازہ نہ ہو سکا۔

نضر بن حارث قریش کے شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا، وہ حیران رہ گیا، وہاں بادشاہوں کے واقعات اور رستم و اِسْفَنْدیار کے قصے سیکھے، پھر واپس آیا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کی باتیں کرتے اور اس کی گرفت سے لوگوں کو ڈراتے تو آپ کے بعد یہ شخص وہاں پہنچ جاتا اور کہتا: "واللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں مجھ سے بہتر نہیں۔" اس کے بعد وہ فارس کے بادشاہوں اور رُستم واسفندیار کے قصے سناتا، پھر کہتا: "آخر کس بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مجھ سے بہتر ہے۔"

نضر بن حارث نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی، جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبی کریم کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لےجا کر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ، یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاتے ہیں۔

دوسری طرف مشرکین مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، اس کام میں آپ کا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی سر فہرست تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی، کٹر دشمنی کا تھا، اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی، اس کا ذکر پچھلی اقساط میں آچکا ہے۔

بعثت سے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے کی تھی،  لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی، اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) "ابتر" (نسل بریدہ ) ہوگئے ہیں۔ (نعوذ بااللہ)

ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ایام حج میں ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کے لیے بازاروں، اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا، یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتارہتا تھا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں۔

ابولہب کی بیوی اُم جمیل جس کا نام "اَرْویٰ" تھا اور جو حَرب بن اُمیہ کی بیٹی اور حضرت ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کی بہن تھی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت میں اپنے شوہر سے پیچھے نہ تھی، چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی، خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرنا، لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری وافتراء پردازی سے کام لینا، فتنے کی آگ بھڑکانا اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا، اسی لیے قرآن میں اس کو'' وَامْرَ‌أَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ '' (لکڑی ڈھونے والی ) کا لقب عطا کیا۔

جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہر کی مَذَمت میں قرآن نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کرتی ہوئی آئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے، یہ مُٹھی بھر پتھر لیے ہوئے تھی، سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑلی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی، صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہی تھی، اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا: "ابوبکر! تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجو کرتا ہے،  واللہ! اگر میں اسے پاگئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے ماروں گی، دیکھو! اللہ کی قسم! میں بھی شاعرہ ہوں۔" پھر اس نے یہ شعر سنایا: 

''ہم نے مُذَمَّم کی نافرمانی کی، اس کے امر کو تسلیم نہ کیا اور اس کے دین کو نفرت وحقارت سے چھوڑدیا۔"

مشرکین جل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "محمد" کے بجائے مُذمم کہتے تھے، جس کا معنی محمد کے معنی کے برعکس ہے۔ "محمد" وہ شخص ہے جس کی تعریف کی جائے، "مذمم" وہ شخص ہے جس کی مذمت اور برائی کی جائے۔

اس کے بعد واپس چلی گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں تھا؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "نہیں! اس نے مجھے نہیں دیکھا، اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی۔"


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں