سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 44


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 44 

وحی کی مختلف صورتیں: 


آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے: 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: "کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے، مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے، پھر مجھ سے بات کرتا ہے، جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کرلیتا ہوں۔"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، (ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔" (بخاری، باب بدء الوحی، حدیث نمبر: ۲)

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا، چہرۂ انور متغیر ہوکر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد: ۸/۳۷۹)

وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ "اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی۔"
(فتح الباری: ۱/۳)

ایک بار اس طرح وحی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی تو ان پر اس قدر گراں بار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ران کچل جائے گی۔

بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔
(بیہقی، ابواب کیفیۃ نزول الوحی، حدیث نمبر :۲۹۸۳)

وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیتا تھا، ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ماذکر فی عائشۃ رضی اللہ عنہا: حدیث نمبر: ۳۲۹۴۵)

وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے۔ ایک مرتبہ اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر۔ پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔
(فتح الباری: ۱/۱۸ ،۱۹)

وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے، جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی، اس وقت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔ (بخاری، باب بدءالوحی، حدیث نمبر: ۳)

وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرما دیتے تھے، اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں، جیسے حدیث پاک میں ہے: "جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں، یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہوجائے، لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو۔" (شعب الایمان، حدیث نمبر: ۱۱۹۰)

وحی کی چھٹی صورت فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست گفتگو، جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمائی تھی، وحی کی یہ صورت موسیٰ علیہ السلام کے لیے نص قرآنی سے قطعی طور پر ثابت ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس کا ثبوت (قرآن کی بجائے) معراج کی حدیث میں ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معراج کی رات نماز کی فرضیت وغیرہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت وحی فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اُوپر تھے۔ (زاد المعاد ۱/۱۸.. امام ابن قیم)

بعض لوگوں نے ایک ساتویں شکل کا بھی اضافہ کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ رُو در رُو بغیر حجاب کے گفتگو کرے، لیکن یہ ایسی صورت ہے جس کے بارے میں سلف سے لے کر خلف تک اختلاف چلا آیا ہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں