سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 60


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 60 

حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا: 


حضرت عمر رضی الله عنہ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا،  اس لیے ان کے مسلمان ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی، دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت، شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی۔

ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکہ کا کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے، پھر میں نے جی ہی جی میں کہا: ''یہ ابو جہل ہے۔'' اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ باہر آیا، دیکھ کر بولا: "أھلًا وسھلًا (خوش آمدید،خوش آمدید) کیسے آنا ہوا۔؟"

میں نے کہا: "تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں، اس کی تصدیق کرچکا ہوں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا:  "اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے، اس کا بھی برا کرے۔"

امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے، اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا، اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاص بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی، وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا (شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے) اور اسے خبر دی، وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔

ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے، یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا، حضرت عمر نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں، اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ "خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ اس کے پیچھے ہی تھے، بولے: "یہ جھوٹ کہتا ہے، میں مسلمان ہوگیا ہوں۔" بہر حال لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی، لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر رضی الله عنہ لوگوں کو مار رہے تھے، یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ تھک کر بیٹھ گئے، لوگ سر پر سوار تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: "جو بن پڑے کرلو، اللہ کی قسم! اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکہ میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی، باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا تو انہوں نے کہا: "مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے۔" پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے اخیر میں کہا کہ "پھر جب میں مسلمان ہوا تو میں نے کہا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں، خواہ زندہ رہیں، خواہ مریں۔؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ حق پر ہو، خواہ زندہ رہو، خواہ موت سے دوچار ہو۔"

حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا: "پھر چُھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! ہم ضرور باہر نکلیں گے۔"

چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے، ایک صف میں حمزہ رضی الله عنہ تھے اور ایک میں، میں تھا، ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا، یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے، حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی،  اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا لقب "فاروق" رکھ دیا۔"

حضرت صہیب بن سنان رومی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا، اس کی علانیہ دعوت دی گئی، ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے، بیت اللہ کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی، اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا۔

حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے،  یہاں تک کہ حضرت عمر نے اسلام قبول کیا، جب سے حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسلام قبول کیا،  تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں