سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 67


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 67 

بائیکاٹ کا صحیفہ چاک کیا جاتا ہے۔


قریش نے بنی ہاشم کا مقاطعہ غیر معیّنہ مدت کے لئے کیا تھا، لیکن وہ تین سال سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا، محرم 10 نبوت میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہدو پیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کرنے کی تگ و دو کی۔

اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئی کا "ہشام بن عمرو" نامی ایک شخص تھا، یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا، یہ "زہیر بن ابی امیہ مخزومی" کے پاس پہنچا (زہیر کی ماں عاتکہ حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی یعنی حضرت ابو طالب کی بہن تھیں) اور اس سے کہا: "کیوں زہیر! کیا تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاؤ پیو، آزادی سے پھرو اور تمہارے ننھیالی رشتہ دار ہر راحت سے محروم رہیں اور انہیں کھانے کو کچھ نہ مل سکے؟"

زہیر نے کہا: "افسوس! میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں؟ ہاں! اگر میرے ساتھ کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس صحیفے کو پھاڑنے کے لیے یقیناً اٹھ پڑتا۔"

ہشام نے کہا: "اچھا  تو ایک آدمی اور موجود ہے
پوچھا: "کون ہے؟
ہشام نے کہا: "میں ہوں
زہیر نے کہا: "اچھا تو اب تیسرا آدمی تلاش کرو۔"

اس پر ہشام "مُطعم بن عدی" کے پاس گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے جو کہ عبدمناف کی اولاد تھے، مطعم کے قریبی نسبی تعلق کا ذکر کرکے اسے ملامت کی کہ اس نے اس ظلم پر قریش کی ہم نوائی کیونکر کی؟ یاد رہے کہ مطعم بھی عبدمناف ہی کی نسل سے تھا، مطعم نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

اس کے بعد ہشام بن عمرو "ابو البختری بن ہشام" کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی، جیسی زہیر اور مطعم سے کی تھی، اس نے کہا: "بھلا کوئی اس کی تائید بھی کرنے والا ہے؟" ہشام نے کہا: "ہاں! زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی اور میں۔" یہ سن کر ابو البختری نے بھی ساتھ دینے کی حامی بھرلی۔

اس کے بعد ہشام "زمعہ بن اسود بن مطلب بن اسد" کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے بنو ہاشم کی قرابت اور ان کے حقوق یاد دلائے، اس نے کہا: "بھلا جس کام کے لیے مجھے بلا رہے ہو اس سے کوئی اور بھی متفق ہے؟" ہشام نے اثبات میں جواب دیا اور سب کے نام بتلائے، اس کے بعد ان لوگوں نے حجون کے پاس جمع ہو کر آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے، زہیر نے کہا: "میں ابتدا کروں گا، یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا۔"

صبح ہوئی تو سب لوگ حسب معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے، زہیر بھی ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے پہنچا، پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: "مکے والو! کیا ہم کھانا کھائیں، کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم تباہ وبرباد ہوں، نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے، نہ ان سے کچھ خریدا جائے، اللہ کی قسم! میں بیٹھ نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کردیا جائے۔"

ابو جہل جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا، بولا: "تم غلط کہتے ہو، اللہ کی قسم! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا۔"

اس پر زمعہ بن اسود نے کہا: "واللہ! تم زیادہ غلط کہتے ہو، جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا، تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے۔"

اس پر ابو البختری نے گرہ لگائی: "زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے، اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے نہ ہم راضی ہیں، نہ اسے ماننے کو تیار ہیں۔"

اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا: "تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے، غلط کہتا ہے، ہم اس صحیفہ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، اس سے اللہ کے حضور براءت کا اظہار کرتے ہیں۔" پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔

یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا: "ہونہہ! یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے۔"

ان لوگوں میں یہ بحث و تکرار ہو رہی تھی کہ حضرت ابو طالب حرم میں آئے اور کہا: "میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا ہے کہ اس عہد نامہ کی ساری تحریر سوائے لفظ اللہ کے دیمک چاٹ گئی ہے، خدا کی قسم! اس نے کبھی جھوٹ نہیں کہا، اس لئے تم اس معاہدہ کو منگوا کر دیکھو، یہ صحیح ہے تو اسے چاک کردو اور اگر غلط ہو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں۔"

سب نے حضرت ابو طالب کی بات سے اتفاق کیا اور عہد نامہ منگوا کر کھولا گیا تو کفار قریش نے حیرت سے دیکھا کہ اس میں سوائے "باسمک اللّھم" کے ساری تحریر دیمک کھا گئی تھی، مطعم بن عدی نے عہد نامہ کو چاک کردیا، اس کے بعد وہ پانچوں سردار ہتھیار باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے اور بنو ہاشم کو شعب سے نکال کر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لئے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی ایک
عظیم الشان نشانی دیکھی، لیکن ان کا رویہ وہی رہا جس کا ذکر اس آیت میں ہے: 

''اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے۔

چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں