سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 49


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 49 

محاذآرائی کی دوسری صورت: 
شکوک و شبہات پیدا کرنا اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنا 


یہ کام انہوں نے اس کثرت سے کیا اور ایسے ایسے انداز سے کیا کہ عوام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت وتبلیغ پر غور وفکر کا موقع ہی نہ مل سکا، چنانچہ وہ قرآن کے بارے میں کہتے کہ:  "یہ پریشان خواب ہیں، جنہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں دیکھتے اور دن میں تلاوت کردیتے ہیں۔" کبھی کہتے: "بلکہ اسے انہوں نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔" کبھی کہتے: "انہیں کوئی انسان سکھاتا ہے۔" کبھی کہتے: "یہ قرآن تو محض جھوٹ ہے، اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر ان کی مدد کی ہے۔" یعنی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے مل کر اسے گھڑ لیا ہے اور یہ بھی کہا کہ: "یہ پہلوں کے افسانے ہیں، جنہیں اس نے لکھوا لیا ہے اور اب یہ اس پر صبح وشام پڑھے جاتے ہیں۔" کبھی یہ کہتے کہ: "کاہنوں کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کوئی جن یا شیطان اترتا ہے۔"

اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: "آپ کہہ دیں! میں بتلاؤں کس پر شیطان اترتے ہیں۔؟ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں۔" (۲۶:۲۲۱، ۲۲۲)

یعنی شیطان کا نزول جھوٹے اور گناہوں میں لت پت لوگوں پر ہوتا ہے اور تم لوگوں نے مجھ سے نہ کبھی کوئی جھوٹ سنا اور نہ مجھ میں کبھی کوئی فسق پایا، پھر قرآن کو شیطان کا نازل کیا ہوا کیسے قرار دے سکتے ہو۔؟

کبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ کہا کہ آپ ایک قسم کے جنون میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے آپ معانی کا تخیل کرتے ہیں اور انہیں عمدہ اور نادر قسم کے کلمات میں ڈھال لیتے ہیں، جس طرح شعراء اپنے خیالات کو حسین الفاظ کا جامہ پہنایا کرتے ہیں، لہٰذا وہ بھی شاعر ہیں اور ان کا کلام شعر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: "شعراء کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں، تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی کا چکر کاٹتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں کرتے نہیں۔" (۲۶: ۲۲۴ تا ۲۲۶)

یعنی یہ شعراء کی تین خصوصیات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی خصوصیت نبی میں موجود نہیں،  چنانچہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار ہیں، وہ ہدایت یاب وہدایت کار ہیں، اپنے دین، اخلاق، اعمال اور تصرفات ہر چیز میں صالح اور پرہیز گار ہیں، ان پر ان کی زندگی کے کسی بھی معاملے میں گمراہی کا نام ونشان نہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعراء کی طرح ہر وادی کا چکر نہیں کاٹتے، بلکہ ایک رب، ایک دین اور ایک راستے کی دعوت دیتے ہیں، علاوہ ازیں آپ وہی کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں، لہٰذا آپ کو شعراء اور ان کی شاعری سے کیا واسطہ؟ اور شعراء اور ان کی شاعری کو آپ سے کیا واسطہ۔؟

یوں وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اور قرآن واسلام کے خلاف جو شبہ بھی اٹھاتے تھے اللہ تعالیٰ اس کا کافی وشافی جواب دیتا تھا، ان کے زیادہ تر شبہات توحید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور مرنے کے بعد قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے سے متعلق ہوا کرتے تھے، قرآن نے توحید کے متعلق ان کے ہر شبہے کا ردّ کیا ہے، بلکہ مزید اتنی باتیں بیان کی ہیں جن سے اس قضیے کا ہر پہلو واضح ہوگیا ہے اور اس کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا ہے، اس ضمن میں ان کے معبودوں کی عاجزی ومجبوری اس طرح کھول کر بیان کی ہے کہ اس پر اضافے کی گنجائش نہیں اور شاید اسی بات پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا اور پھر جو کچھ پیش آیا وہ معلوم ہے۔

جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبری کے بارے میں ان کی شبہات کا تعلق ہے تو وہ تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ آپ سچے، امانت دار اور انتہائی صلاح وتقویٰ پر قائم ہیں، لیکن وہ سمجھتے تھے کہ منصب نبوت ورسالت اس سے کہیں زیادہ عظیم وجلیل ہے کہ وہ کسی انسان کو دیا جائے،  یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہوسکتا اور جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا،  اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نبوت کا ا علان کیا اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا: "یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔" (۲۵:۷)

انہوں نے یہ بھی کہا: "اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے۔" (۶: 91)

اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: "آپ کہہ دیں وہ کتاب کس نے اتاری ہے، جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے اور جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت ہے۔" (۶: ۹۱)

وہ چونکہ جانتے تھے اور مانتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بشر ہیں، اس لیے جواب نہ دے سکے، اللہ نے ان کے رد میں یہ بھی فرمایا کہ ہر قوم نے اپنے پیغمبروں کی پیغمبری کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ: "تم لوگ ہمارے ہی جیسے بشر ہو۔" (۱۴: ۱۰)

اور اس کے جواب میں پیغمبروں نے ان سے کہا تھا کہ: "ہم لوگ یقیناً تمہارے ہی جیسے بشر ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، احسان کرتا ہے۔" (۱۴: ۱۱)

مطلب یہ کہ انبیاء ورسل ہمیشہ بشر ہی ہوا کیے ہیں، بشریت اور رسالت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے،  چونکہ انہیں اقرار تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام پیغمبر تھے اور بشر بھی تھے، اس لیے وہ اپنے اس شبہ پر زیادہ اصرار نہ کر سکے، اس لیے انہوں نے پینترا بدلا اور کہنے لگے: "اچھا اگر ایسا ہے بھی کہ بشر پیغمبر ہوسکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اپنی پیغمبری کے لیے یہی یتیم ومسکین انسان ملا تھا؟ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکہ اور طائف کے بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر اس مسکین کو پیغمبر بنالے۔

اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: "کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں۔" (مطلب یہ ہے کہ وحی ورسالت تو اللہ کی رحمت ہے) اور "اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کہاں رکھنی چاہیے۔" (۶: ۱۲۴)

ان جوابات کے بعد مشرکین نے ایک اور پہلو بدلا اور کہنے لگے کہ دنیا کے بادشاہوں کے ایلچی تو خدم وحشم کے جلو میں چلتے ہیں، ان کا بڑا جاہ وجلال ہوا کرتا ہے اور ان کے لیے ہر طرح کے سامان زندگی مہیا کرتے ہیں، پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا معاملہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں لقمۂ زندگی کے لیے بازاروں کے چکر بھی کاٹنا پڑتے ہیں۔

"ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا، جو ان کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا؟ یا ان کی طرف خزانہ کیوں نہیں ڈال دیا گیا، یا ان کا کوئی باغ ہی ہوتا جس سے وہ کھاتے اور ظالموں نے کہا کہ تم لوگ تو ایک جادو کیے ہوئے آدمی کی پیروی کر رہے ہو۔" (۲۵:۷،۸)

اللہ نے اس ساری کٹ حجتی کا ایک مختصر سا جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، یعنی آپ کی مہم یہ ہے کہ آپ ہر چھوٹے بڑے، کمزور اور طاقتور، شریف اور پست،  آزاد اور غلام تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں، لہٰذا اگر ایسا ہوتا کہ آپ بھی بادشاہوں کے ایلچیوں کی طرح جاہ وجلال، خدم وحشم، اردلی اور جلو میں چلنے والوں کے ساتھ بھیجے جاتے تو کمزور اور چھوٹے لوگ تو آپ تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے کہ آپ سے کسی طرح کا استفادہ کر سکیں، حالانکہ یہی جمہور ہیں، لہٰذا ایسی صورت میں پیغمبر بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا اور اس کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہ ہوتا۔

جہاں تک مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے معاملے کا تعلق ہے تو اس کے انکار کے لیے مشرکین کے پاس حیرت واستعجاب اور عقلی استبعاد کے علاوہ کوئی دلیل نہ تھی، وہ تعجب سے کہتے تھے۔

"کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے تو پھر اٹھادئے جائیں گے، کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی۔؟ (الصافات :۱۶، ۱۷)

پھر خود ہی کہتے تھے یہ دور کی واپسی ہے، تعجب سے کہتے: 

"کیا ہم تمہیں ایک ایسا آدمی نہ بتلائیں، جو خبر دیتا ہے کہ جب تم لوگ بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤگے تو پھر تمہاری ایک نئی پیدائش ہوگی، معلوم نہیں اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے، یا اس کو پاگل پن ہے۔" (۳۴: ۷،۸)

اللہ نے اس کی تردید کے لیے دنیا میں پیش آنے والے حالات پر ان کی نظر ڈلوائی کہ دیکھو! ظالم اپنے ظلم کی جزا پائے بغیر دنیا سے گزر جاتا ہے اور مظلوم بھی ظالم سے اپناحق وصول کیے بغیر موت سے دوچار ہو جاتاہے، محسن اور صالح اپنے احسان اور صلاح کا بدلہ پائے بغیر فوت ہوجاتا ہے اور فاجر اور بدکار اپنی بدعملی کی سزا پائے بغیر مر جاتا ہے، اب اگر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھایا جائے اور اس کے عمل کا بدلہ نہ دیا جائے تو دونوں فریق برابر ہو جائیں گے، بلکہ ظالم اور فاجر مظلوم اور نیکوکار سے زیادہ ہی خوش قسمت ہوں گے اور یہ بات قطعاً غیر معقول ہے اور اللہ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنی مخلوق کے نظام کی بنیاد ایسے فساد پر رکھے گا،  اللہ فرماتا ہے: 

"کیا ہم تابعداروں کو مجرموں جیسا ٹھہرائیں گے، تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کررہے ہو۔؟ (۶۸: ۳۵،۳۶)

"کیا ہم ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو زمین کے اندر فساد برپا کرنے والوں جیسا بنائیں گے؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو فاجروں جیسا ٹھہرائیں گے؟ (۳۸: ۲۸)

"کیا برائیاں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں جیسا بنائیں گے کہ ان (دونوں گروہوں) کی زندگی اور موت یکساں ہو، بر افیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔" 
(۲۹: ۴)

جہاں تک ان کے عقل استبعاد کا تعلق ہے تو اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا: 

"کیا تم پیدائش میں زیادہ سخت ہو یا آسمان؟" (۷۹: ۲۷)

"کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کو پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے؟ کیوں نہیں! یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(۴۶: ۳۳)

"تم پہلی پیدائش تو جانتے ہی ہو، پھر حقیقت کیوں نہیں مانتے۔" (۵۶: ۶۲)

اللہ تعالیٰ نے وہ بات بھی بتلائی جو عقلاً اور عرفاً دونوں طرح معروف ہے کہ کسی چیز کو دوبارہ کرنا پہلی بار سے زیادہ آسان ہوتا ہے، فرمایا:

"جیسے ہم نے پہلی بار پیدائش کی ابتدا کی تھی اسی طرح پلٹا بھی لیں گے۔" (۲۱: ۱۰۴)

"کیا پہلی بار پیدا کرنے سے ہم تھک گئے ہیں؟"

یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک ایک شبہے کا نہایت اطمینان بخش جواب دیا، جس سے ہر سوجھ بوجھ والا آدمی مطمئن ہو سکتا ہے، لیکن کفارِ مکہ ہنگامہ پسند تھے، ان میں استکبار تھا، وہ زمین پر بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے اور مخلوق پر اپنی رائے لاگو کرنا چاہتے تھے، اس لیے اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہے

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔> 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں