سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 47


سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ قسط: 47 
==========================

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر: 


خاندان عبدالمطلب کو دین حق کی دعوت دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اعلانیہ تبلیغ کا حکم مل گیا تو ایک روز آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور پکارا:
"یا صبا حاہ! یا صبا حاہ! (ہائے صبح کا خطرہ! ہائے صبح کا خطرہ! )

یہ نعرہ شدید خطرہ کے وقت لگایا جاتا تھا، عربوں کا دستور تھا کہ وہ شب خون نہیں مارا کرتے تھے بلکہ شب خون کے لئے صبح کا وقت مقرر تھا، اسی لئے رات میں ہتھیار کھول دیتے تھے، یہ نعرہ لگانے کا مطلب صبح کا حملہ سمجھا جاتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ نعرہ لگایا تو سب لوگ تیزی سے جمع ہوئے، ان میں ابولہب بھی تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آ رہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم کو یقین آئے گا؟

سب نے کہا: "ہاں! کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سے سچ بولتے دیکھا ہے، ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔"

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 
"اچھا تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا، پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جائے گا، لہٰذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کردی۔ "یا صبا حاہ!

قریش کے لوگو! اپنے آپ کو اللہ سے خرید لو، جہنم سے بچالو، میں تمہارے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، نہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں۔ 

بنو کعب بن لؤی! بنو مرہ بن کعب! بنو قصی! بنو عبد مناف! بنو عبد شمس! بنو ہاشم! بنو عبد المطلب!  اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، کیونکہ میں تمہارے نفع ونقصان مالک نہیں اورنہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں، میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، مگر میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ 

تم سب لَا اِلٰہ اِ لاَّ اللہ کے قائل ہو جاؤ، ورنہ تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ 

یہ سن کر سب لوگ جن میں آپ کا چچا ابو لہب بھی شامل تھا، سخت برہم ہوئے اور واپس چلے گئے،  ابولہب نے یہ گستاخی کی کہ غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنے کے لئے پتھرا ٹھایا اور بدتمیزی کی، کہنے لگا: "تو سارے دن غارت ہو، تونے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا۔" اس پر سورۂ تبت یدا أبی لہب نازل ہوئی۔

ابولہب کی بیوی "ارویٰ یا حمنہ بنت حرب" جو اُم جمیل کی کنیت سے مشہور تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے، لیکن وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی۔

دعوتِ حق کی اس پہلی للکار نے ساری قوم کو چونکا دیا اور گلی گلی اس کا چرچا ہونے لگا، چند روز بعد قوم کو ڈرانے کےلئے سورۂ انبیاء کی آیت ۹۸ کے ذریعہ حکم نازل ہوا۔

"یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہے، تمہیں اسی جہنم میں جا اُترنا ہے۔" (سورہ انبیاء: ۹۸) 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا کی چوٹی سے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اہلیان مکہ کو سنایا جس کو سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، اس لئے کہ کعبہ میں موجود 360 بت ہی ان کی معیشت اور اقتدار کا ذریعہ تھے جن کو پوجنے کے لئے سارا عرب آتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بت پرستی سے منع کرتی تھی۔

ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا، کفار کے نزدیک یہ حرم کی سب سے بڑی توہین تھی، اس لئے دفعتاً ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے، مسلمانوں کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی دوڑے دوڑے آئے جن میں حضرت حارث بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کی اولاد) بھی تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کے لئے لپکے، لیکن ہر طرف سے ان پر تلواریں برس پڑیں اور وہ شہید ہو گئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے زمین رنگین ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو دن بہ دن قبولیت حاصل ہوتی گئی اور لوگ اللہ کے دین میں اکا دکا داخل ہوتے گئے، پھر جو اسلام لاتا اس میں اور اس کے گھر والوں میں بغض، دوری اور اختلاف کھڑا ہوجاتا، قریش اس صورت حال سے تنگ ہو رہے تھے اور جو کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے آرہا تھا انہیں ناگوار محسوس ہو رہا تھا، ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی یعنی ابھی کھُلم کھلا تبلیغ پر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا۔

قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی، اس لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپ کی تبلیغ کا اثر نہ ہو، چنانچہ وہ اس بات پر گفت وشنید کے لیے "ولید بن مغیرہ" کے پاس اکٹھے ہوئے، ولید نے کہا: "اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کرلو، تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کاٹ دے۔"

لوگوں نے کہا: "آپ ہی کہئے" اس نے کہا: "نہیں تم لوگ کہو، میں سنوں گا۔" اس پر چند لوگوں نے کہا:  "ہم کہیں گے وہ کاہن ہے۔"

ولید نے کہا: "نہیں واللہ! وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے، نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تُک بندی۔"

اس پر لوگوں نے کہا: "تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے۔"

ولید نے کہا: "نہیں، وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل بھی دیکھا ہے اور اس کی کیفیت بھی، اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دَم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں۔"

لوگوں نے کہا: "تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے۔"

ولید نے کہا: "وہ شاعر بھی نہیں، ہمیں رَجَز، ہجز، قریض، مقبوض، مبسوط، سارے ہی اصنافِ سخن معلوم ہیں، اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے۔"

لوگوں نے کہا: "تب ہم کیا کہیں گے؟"

ولید نے کہا: "اللہ کی قسم! اس کی بات بڑی شیریں ہے، اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار،  تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے، البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے، اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے، اس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔"

بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں