سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 75


سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔ قسط: 75 

ایمان کی شعائیں مکہ سے باہر: 


جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائل اور وفود پر اسلام پیش کیا، اسی طرح افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی اور بعض نے اچھا جواب بھی دیا، پھر اس موسم حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا۔ ذیل میں ان کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے: 

سوید بن صامت رضی اللہ عنہ: 

یہ شاعر تھے، گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے تھے، ان کی پختگی، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا، یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، کہنے لگے: "غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس کیا ہے؟" سوید (رضی اللہ عنہ) نے کہا:  "حکمتِ لقمان" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "پیش کرو" انہوں نے پیش کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "یہ کلام یقینا اچھا ہے، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے، وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے، وہ ہدایت اور نور ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی، سوید (رضی اللہ عنہ) بولے: "یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے" اور اسلام قبول کرلیا۔

اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے، اغلب یہ ہے کہ انہوں نے 11 نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔

ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ: 

یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان تھے، 11 نبوت میں "جنگ بُعاث" سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا، آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے، اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا: 

"آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں؟" ان سب کہا: "وہ کیا چیز ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، اللہ نے مجھ پر کتاب بھی اتاری ہے۔" پھر آپ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ 

ایاس بن معاذ (رضی اللہ عنہ) بولے: "اے قوم! اللہ کی قسم! یہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں" لیکن وفد کے ایک رکن ابوالحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: "چپ رہو، ہم کسی اور کام کے لئے آئے ہیں" چنانچہ ایاس (رضی اللہ عنہ) خاموش ہوگئے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے، وفد قریش کے ساتھ حلف و تعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔

مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس (رضی اللہ عنہ) انتقال کر گئے، وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔

ضماد ازدی رضی اللہ عنہ: 

یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد کے ایک فرد تھے، جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا، مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ (نعوذ باللہ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاگل ہیں،  سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں، ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے؟  چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا: "اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ کو بھی اس کی ضرورت ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: "یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔

ضماد (رضی اللہ عنہ) نے کہا: "ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد (رضی اللہ عنہ) نے کہا: "میں کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کی بات سن چکا ہوں، لیکن میں نے آپ کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے، یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں، لائیے! اپنا ہاتھ بڑھایئے! آپ سے اسلام پر بیعت کروں" اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔


==================> جاری ہے ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں